Saturday, July 11, 2009

Sadat Hasan Manto 's Short Story Kali Shalwar in Urdu Hindi & other Script

کالی شلوار

سعادت حسن منٹو


دہلی سے آنے سے پہلے وہ انبالہ چھاؤنی میں تھی، جہاں کئی گورے اس کے گاہک تھے۔ ان گوروں سے ملنے جلنے کے باعث وہ انگریزی کے دس پندرہ جملے سیکھ گئی تھی۔ ان کو وہ عام گفتگو میں استعمال نہیں کرتی تھی لیکن جب وہ یہاں آئی اور اس کا کاروبار نہ چلا تو ایک روزاس نے اپنی پڑوسن طمنچہ جان سے کہا۔ ” دِس لیف.... ویری بیڈ۔“ یعنی یہ زندگی بہت بری ہے، جبکہ کھانے ہی کو نہیں ملتا۔
انبالہ چھاؤنی میں اس کا دھندا بہت اچھا چلتا تھا۔ چھاؤنی کے گورے شراب پی کر اس کے پاس آجاتے تھے اور وہ تین چار گھنٹوں میں ہی آٹھ دس گوروں کو نپٹا کر بیس تیس روپے پیدا کرتی تھی۔ یہ گورے، اس کے ہم وطنوں کے مقابلے میں اچھے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایسی زبان بولتے تھے جس کا مطلب سلطانہ کی سمجھ میں نہیں آتا تھا مگر ان کی زبان سے یہ لاعلمی اس کے حق میں بہت اچھی ثابت ہوتی تھی۔ اگر وہ اس سے کچھ رعایت چاہتے تو وہ کہہ دیا کرتی تھی۔ ”صاحب ہماری سمجھ میں تمہاری بات نہیں آتی۔“ اور اگر وہ اس سے ضرورت سے زیادہ چھیڑ چھاڑ کرتے تو وہ اپنی زبان میں گالیاں دینی شروع کردیتی تھی۔ وہ حیرت میں اس کے منہ کی طرف دیکھتے تو وہ کہتی۔ ”صاحب ! تم ایک دم الو کا پٹھا ہے، حرامزاد ہے، سمجھا۔“ یہ کہتے وقت وہ لہجہ میں سختی پیدا نہ کرتی بلکہ بڑے پیار کے ساتھ ان سے باتیں کرتی۔ گورے ہنس دیتے اور ہنستے وقت وہ سلطانہ کو بالکل الو کے پٹھے دکھائی دیتے۔مگر یہاں دہلی میں وہ جب سے آئی تھی ایک بھی گورا اس کے یہاں نہیں آیا تھا۔ تین مہینے اس کو ہندوستان کے اس شہر میں رہتے ہو گۓ تھے جہاں اس نے یہ سنا تھا کہ بڑے لاٹ صاحب رہتے ہیں مگر صرف چھ آدمی اس کے پاس آۓ تھے۔ صرف چھ، یعنی مہینے میں دو اور ان چھ گاہگوں سے خدا جھوٹ نہ بلواۓ ساڑھے اٹھارہ روپے وصول کۓ تھے۔ تین روپے سے زیادہ پر کوئی نہ مانتا تھا۔ سلطانہ نے ان میں سے پانچ آدمیوں کو اپنا ریٹ دس روپے بتلایا تھا مگر تعجب کی بات ہے کہ ان میں سے ہر ایک نے یہی کہا ”بھئی ہم تین روپے سے ایک کوڑی زیادہ نہیں دیں گے۔“ جانے کیا بات تھی کہ ان میں سے ہر ایک نے اسے تین روپے کے قابل سمجھا۔ چنانچہ جب چھٹا آیا تو اس نے خود اس کہا۔” دیکھو میں تین روپے ایک ٹیم کے لوں گی؛ اس سے ایک دھیلا تم کم کہو تو میں نہ لوں گی۔ اب تمہاری مرضی ہو تو رہو ورنہ جاؤ“۔ چٹھے آدمی نے یہ سن کر تکرار نہ کی اور اس کے ہاں ٹھہر گیا۔ جب دوسرے کمرے میں ....دروازہ بند کرکے اپنا کوٹ اتارنے لگا تو سلطانہ نے کہا ”لایۓ ایک روپے دودھ کا۔“ اس نے ایک روپیہ تو نہ دیا لیکن نۓ بادشاہ کی چمکتی ہوئی چونی جیب میں سے نکال کر اس کو دے دی اور سلطانہ نے بھی چپکے سے لے لی کہ چلو جو آیا مال غنیمت ہے۔
ساڑھے اٹھارہ روپے ماہوار تین مہینوں میں.... بیس روپے ماہوار تو اس کوٹھے کا کرایہ تھا جس کو مالک انگریزی زبان میں فلیٹ کہتا تھا۔ اس فلیٹ میں ایسا پاخانہ تھا جس میں زنجیر کھینچنے سے ساری گندگی پانی کے زور سے ایک دم نل میں غائب ہو جاتی تھی اور بڑا شور ہوتا تھا۔ شروع شروع میں تو اس شور نے اسے بہت ڈرایا تھا۔ پہلے دن جب وہ رفع حاجت کے لۓ اس پاخانہ میں گئی تو اس کی کمر میں شدت کا درد ہو رہا تھا فارغ ہو کر جب اٹھنے لگی تو اس نے لٹکتی ہوئی زنجیر کا سہارا لے لیا۔ اس زنجیر کو دیکھ کر اس نے یہ خیال کیا چونکہ یہ مکان خاص طور سے ہم لوگوں کی رہائش کے لۓ تیار کۓکۓ گۓ ہیں، یہ زنجیر اس لۓ لٹکائی گئی ہے کہ اٹھتے وقت تکلیف نہ ہو اور سہارا مل جایا کرے۔ مگر جونہی زنجیر پکڑ کر اس نے اٹھنا چاہا اوپر کھٹ کھٹ سی ہوئی اور پھر ایک دم پانی اس شور کے ساتھ باہر نکلا کہ ڈر کے مارے اس کے منہ سے چیخ نکل گئی۔خدا بخش دوسرے کمرے میں اپنا فوٹو گرافی کاسامان درست کر رہا تھا اور ایک صاف بوتل میں ہائیڈرو کونین ڈال رہا تھا کہ اس نے سلطانہ کی چیخ سنی۔ دوڑ کر باہر نکلا اور سلطانہ سے کہنے لگا ” کیا ہوا.... چیخ تمہاری تھی۔“سلطانہ کا دل دھڑک رہا تھا۔ ”یہ موا پیخانہ ہے کیا.... بیچ میں یہ ریل گاڑیوں کی طرح زنجیر کیا لٹکا رکھی ہے۔ میری کمر میں درد تھا۔ میں نے کہا چلو اس کا سہارا لے لوں گی۔ پر اس موئی زنجیر کو چھیڑنا تھا کہ ایسا دھماکا ہوا کہ میں تم سے کیا کہوں۔“اس پر خدا بخش بہت ہنسا تھا اور اس نے سلطانہ کو اس پیخانہ کی بابت سب کچھ بتا دیا تھا کہ یہ نۓ فیشن کا ہے جس میں زنجیر ہلانے سے سب گندگی نیچے زمین میں دھنس جاتی ہے۔
خدابخش اور سلطانہ کا آپس میں کیسے سمبندھ ہوا یہ ایک لمبی کہانی ہے۔ خدا بخش راولپنڈی کا تھا۔ انٹرنس پاس کرنے کے بعد اس نے لاری چلانا سیکھا۔ چنانچہ چار برس تک وہ راولپنڈی اور کشمیر کے درمیان لاری چلانے کا کام کرتا رہا۔ اس کے بعد کشمیر میں اس کی دوستی ایک عورت سے ہو گئی۔ اس کو بھگاکر وہ لاہور لے آیا۔ لاہور میں چونکہ اس کو کوئی کام نہ ملا اس لۓ اس نے اس عورت کو پیشے پر بٹھا دیا۔ دو تین برس تک یہ سلسلہ چلتا رہا اور وہ عورت کسی اور کے ساتھ بھاگ گئی۔ خدا بخش کو معلوم ہوا کہ وہ انبالہ میں ہے وہ اس کی تلاش میں انبالہ آیا۔ اس کو سلطانہ مل گئی۔ سلطانہ نے اس کو پسند کیا چنانچہ دونوں کا سمبندھ ہو گیا۔
خدابخش کے آنے سے ایک دم سلطانہ کا کاروبار چمک اٹھا۔ عورت چونکہ ضعیف الاعتقاد تھی اس لۓ اس نے سمجھا کہ خدا بخش بڑا بھاگوان ہے جس کے آنے سے اتنی ترقی ہوگئی چنانچہ اس خوش اعتقادی نے خدا بخش کی وقعت اس کی نظروں میں اور بھی بڑھا دی۔
خدا بخش آدمی محنتی تھا۔ وہ سارا دن ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھنا پسند نہیں کرتا تھا چنانچہ اس نے ایک فوٹو گرافر سے دوستی پیداکی جو ریلوے اسٹیشن کے باہر منٹ کیمرے سے فوٹو کھینچا کرتا تھا۔ اس سے اس نے فوٹو کھینچنا سیکھ لیا۔ پھر سلطانہ سے ساٹھ روپے لے کر کیمرہ بھی خرید لیا۔ آہستہ آہستہ ایک پردہ بھی بنوایا۔ دو کرسیاں خریدیں اور فوٹو دھونے کا سب سامان لے کر اس نے علیحدہ اپنا کام شروع کردیا۔
کام چل نکلا چنانچہ اس نے تھوڑے ہی عرصہ بعد اپنا اڈا انبالہ چھاؤنی میں قائم کردیا۔ یہاں وہ گوروں کے فوٹو کھینچتا رہتا۔ ایک مہینے کے اندر اندر اس کی چھاؤنی کے متعدد لوگوں سے واقفیت ہوگئی چنانچہ وہ سلطانہ کو وہیں لے گیا۔ یہاں چھاؤنی میں خدا بخش کے ذریعے سے کئی گورے سلطانہ کے مستقل گاہک بن گۓ اور اس کی آمدنی پہلے سے دو گنی ہو گئی۔
سلطانہ نے کانوں کے لۓ بندے خریدے، ساڑھے پانچ تولہ کی آٹھ کنگنیاں بھی بنوالیں، دس پندرہ اچھی اچھی ساڑھیاں بھی جمع کرلیں۔ گھر میں فرنیچر وغیرہ بھی آگیا۔ قصہ مختصر یہ کہ انبالہ چھاؤنی میں وہ بڑی خوش حال تھی۔ مگر ایکا ایکی نہ جانے خدا بخش کے دل میں کیا سمائی کہ اس نے دہلی جانے کی ٹھان لی۔ سلطانہ انکار کیسے کرتی جبکہ وہ خدا بخش کو اپنے لۓ بہت مبارک خیال کرتی تھی۔ اس نے خوشی خوشی دہلی جانا قبول کرلیا بلکہ اس نے یہ بھی سوچا کہ اتنے بڑے شہر میں جہاں لاٹ صاحب رہتے ہیں اس کا دھندا اور بھی اچھا چلے گا۔ اپنی سہیلیوں سے وہ دہلی شہر کی تعریف سن چکی تھی۔ پھر وہاں حضرت نظام الدین اولیاءکی خانقاہ تھی جس سے اسے بے حد عقیدت تھی چنانچہ جلدی جلدی گھر کا بھاری سامان بیچ باچ کر خدا بخش کے ساتھ دہلی آگئی۔ یہاں پہنچ کر خدا بخش نے بیس روپے ماہوار پر ایک چھوٹا سا فلیٹ لے لیا جس میں وہ دونوں رہنے لگے۔ایک ہی قسم کے نۓ مکانوں کی لمبی سی قطار سڑک کے ساتھ ساتھ چلی گئی تھی۔ میونسپل کمیٹی نے شہر کا یہ حصہ خاص کسبیوں کے لۓ مقرر کردیا تھا تاکہ وہ شہر میں جگہ جگہ اپنے اڈے نہ بنائیں۔ نیچے دکانیں تھیں اور اوپر دو منزلہ رہائشی فلیٹ تھے۔ چونکہ سب عمارتیں ایک ہی ڈیزائن کی تھیں اس لۓ شروع شروع میں سلطانہ کو اپنا فلیٹ تلاش کرنے میں بہت دقت محسوس ہوتی تھی، پر جب نیچے لانڈری والے نے اپنا بورڈ گھر کی پیشانی پر لگا دیا تو اس کو ایک پکی نشانی مل گئی۔ ” یہاں میلے کپڑوں کی دھلائی کی جاتی ہے“۔ یہ بورڈ پڑھتے ہی وہ اپنا فلیٹ تلاش کرلیا کرتی تھی۔اسی طرح اس نے اور بہت سی نشانیاں قائم کرلی تھیں مثلاً بڑے بڑے حروف میں جہاں کوئلوں کی دکان لکھا تھا وہاں اس کی سہیلی ہیرا بالی رہتی تھی جو کبھی کبھی ریڈیو میں گانے جایا کرتی تھی۔ جہاں ” شرفاءکے کھانے کا اعلیٰ انتظام ہے“ لکھا تھا وہاں اس کی دوسری سہیلی مختار رہتی تھی۔ نواڑ کے کارخانے کے اوپر انوری رہتی تھی جو اس کارخانے کے سیٹھ کے پاس ملازم تھی چونکہ سیٹھ صاحب کو رات کے وقت کارخانے کی دیکھ بھال کرنا ہوتی تھی اس لۓ وہ رات کو انوری کے پاس ہی رہتے تھے۔
دکان کھولتے ہی گاہک تھوڑے ہی آتے ہیں۔ چنانچہ جب ایک مہینے تک سلطانہ بیکار رہی تو اس نے یہی سوچ کر اپنے دل کو تسلی دی پر جب دو مہینے گزر گۓ اور کوئی اس کے کوٹھے پر نہ آیا تو اسے بہت تشویش ہوئی۔ اس نے خدا بخش سے کہا۔ ” کیابات ہے خدا بخش! دو مہینے آج پورے ہو گۓ ہیں ہمیں یہاں آۓ ہوۓ، کسی نے ادھر کا رخ ہی نہیں کیا.... مانتی ہوں آج کل بازار بہت مندا ہے پر اتنا بھی تو نہیں کہ مہینے بھر میں کوئی شکل ہی دیکھنے نہ آۓ۔“ خدا بخش کو بھی یہ بات بہت عرصے سے کھٹک رہی تھی، مگر وہ خاموش تھا پر جب سلطانہ نے خود بات چھیڑی تو اس نے کہا ” میں کئی دن سے اس کی بابت سوچ رہا ہوں۔ ایک بات میری سمجھ میں آئی ہے وہ یہ کہ لوگ باگ جنگ دھندوں میں پڑنے کی وجہ سے بھاگ کر دوسرے دھندوں میں ادھر کا راستہ بھول گۓ.... یا پھر یہ ہو سکتا ہے کہ ....“وہ اس سے آگے کچھ کہنے ہی والاتھا کہ سیڑھیوں پر کسی کے چڑھنے کی آواز آئی۔ خدا بخش اور سلطانہ دونوں اس آواز کی طرف متوجہ ہو ۓ۔ تھوڑی دیر کے بعد دستک ہوئی۔ خدا بخش نے لپک کر دروازہ کھولا۔ ایک آدمی اندر داخل ہوا۔ یہ پہلا گاہک تھا جس سے تین روپے میں سودا طے ہوا۔ اس کے بعد پانچ اور آۓ یعنی تین مہینے میں چھ، جن سے سلطانہ نے صرف ساڑھے اٹھارہ روپے وصول کۓ۔
بیس روپے ماہوار تو فلیٹ کے کرایہ میں چلے جاتے تھے۔ پانی کا ٹیکس اور بجلی کا بل جدا تھا۔ اس کے علاوہ گھر کے دوسرے خرچ تھے کھانا پینا کپڑے لتے۔ دوا اور دارو اور آمدن کچھ بھی نہیں۔ ساڑھے اٹھارہ روپے تین مہینوں میں آئیں تو اسے آمدن تو نہیں کہہ سکتے۔ سلطانہ پریشان ہو گئی۔ ساڑھے پانچ تولے کی آٹھ کنگنیاں جو اس نے انبالہ میں بنوائیں تھیں آہستہ آہستہ بک گئیں۔ آخری کنگنی کی جب باری آئی تو اس نے خدا بخش سے کہا۔ ” تم میری سنو اور چلو واپس انبالہ، یہاں کیا دھراہے۔ بھئی ہو گا، پر ہمیں تو یہ شہر راس نہیں۔ تمہاراکام وہاں خوب چلتا تھا، چلو وہیں چلتے ہیں، جو نقصان ہوا ہے اس کو اپنا سر صدقہ سمجھو۔ یہ آخری کنگنی بیچ کر آؤ میں اسباب وغیرہ باندھ کر تیار رکھتی ہوں۔ آج را ت کی گاڑی سے یہاں سے چل دیں گے۔“خدابخش نے کنگنی سلطانہ کے ہاتھ سے لے لی اور کہا ”نہیں جانِ من! انبالہ اب نہیں جائیں گے یہیں دہلی میں رہ کر کمائیں گے۔ یہ تمہاری چوڑیاں سب کی سب یہیں واپس آئیں گی۔ اللہ پر بھروسہ رکھو، وہ بڑا کارساز ہے۔ یہاں پر بھی کوئی نہ کوئی اسباب بنا ہی دے گا۔“سلطانہ چپ ہو رہی چنانچہ آخری کنگنی بھی ہاتھ سے اتر گئی۔ بچے ہاتھ دیکھ کر اس کو بہت رنج ہوتا تھا پر کیا کرتی پیٹ کو بھی آخر کسی حیلے بھرنا تھا۔
جب پانچ مہینے گزر گۓ اور آمدن خرچ کے مقابلے میں چوتھائی سے بھی کچھ کم رہی تو سلطانہ کی پریشانی اور زیادہ بڑھ گئی۔ خدا بخش بھی سارا دن اب گھر سے غائب رہنے لگا۔ سلطانہ کو اس کا بھی دکھ تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پڑوس میں اس کی دو تین ملنے والیاں موجود تھیں جن کے ساتھ وہ وقت کاٹ سکتی تھی۔ پر ہر روز ان کے یہاں جانا اور گھنٹوں بیٹھے رہنا اس کو بہت برا لگتا تھا چنانچہ رفتہ رفتہ اس نے ان سہیلیوں سے ملنا جلنا بالکل ترک کردیا۔ سارا دن وہ اپنے سنسان مکان میں بیٹھی رہتی، کبھی چھالیہ کاٹتی رہتی، کبھی اپنے پرانے اور پھٹے پرانے کپڑوں کو سیتی رہتی اور کبھی بالکونی میں آکر جنگلے کے پاس کھڑی ہو جاتی تھی اور سامنے ریلوے شیڈ میں ساکت اور متحرک انجنوں کی طرف گھنٹوں بے مطلب دیکھتی رہتی۔
سڑک کی دوسری طرف مال گودام تھا جو اس کونے سے اس کونے تک پھیلا ہوا تھا۔ داہنے ہاتھ کو لوہے کی چھت کے نیچے بڑی بڑی گانٹھیں پڑی رہتی تھیں اور ہر قسم کے مال اسباب کے ڈھیر لگے رہتے تھے۔ بائیں ہاتھ کو کھلا میدان تھا جس میں بے شمار ریل کی پٹڑیاں بچھی ہوئی تھیں۔ دھوپ میں لوہے کی یہ پٹڑیاں چمکتیں تو سلطانہ اپنے ہاتھوں کی طرف دیکھتی جن پر نیلی نیلی رگیں بالکل ان پٹڑیوں کی طرح ابھری رہتی تھیں۔ اس لمبے اور کھلے میدان میں ہر وقت انجن اور گاڑیاں چلتی رہتی تھیں۔ کبھی ادھر کبھی ادھر۔ ان انجنوں اور گاڑیوں کی چھک چھک اور پھک پھک کی صدائیں گونجتی رہتی تھیں۔ صبح سویرے جب وہ اٹھ کر بالکونی میں آتی تو ایک عجیب سماں اسے نظر آتا۔ دھندلکے میں انجنوں کے منہ سے گاڑھا گاڑھا دھواں نکلتا اور گدلے آسمان کی جانب موٹے اور بھاری آدمیوں کی طرح اٹھتا دکھائی دیتا تھا۔ بھاپ کے بڑے بڑے بال بھی ایک عجیب شور کے ساتھ پٹڑیوں سے اٹھتے تھے اور ہولے ہولے ہوا کے اندر گھل مل جاتے تھے پھر کبھی کبھی جب وہ گاڑی کے کسی ڈبے کو جسے انجن نے دھکا دے کر چھوڑ دیا ہوں اکیلے پٹڑیوں پر چلتا دیکھتی تو اسے اپنا خیال آتا۔ وہ سوچتی کہ اسے بھی کسی نے پٹڑی پر دھکا دے کر چھوڑ دیا ہے اور خود بخود جارہی ہے۔ دوسرے لوگ کانٹے بدل رہے ہیں اور وہ چلی جا رہی ہے.... نہ جانے کہاں۔ پھر ایک روز ایسا آۓ گا کہ جب اس دھکے کا زور آہستہ آہستہ ختم ہوجاۓ گا اور وہ کہیں رک جاۓ گی کسی ایسے مقام پر جو اس کا دیکھا بھالا نہ ہو۔یوں تو بے مطلب گھنٹوں ریل کی ان ٹیڑھی پٹڑیوں اور ٹھہرے اور چلتے ہوۓ انجنوں کی طرف دیکھتی رہتی تھی پر طرح طرح کے خیات اس کے دماغ میں آتے رہتے تھے۔ انبالہ چھاؤنی میں جب وہ رہتی تھی تو اسٹیشن کے پاس ہی اس کا مکان تھا مگر وہاں اس نے کبھی ان چیزوں کو ایسی نظروں سے نہیں دیکھا تھا۔ اب توکبھی کبھی اس کے دماغ میں یہ بھی خیال آتا کہ جو سامنے ریل کی پٹڑیوں کا جال سا بچھا ہوا ہے اور جگہ جگہ سے بھاپ اور دھواں اٹھ رہاہے ایک بہت بڑا چکلہ ہے۔ بہت سی گاڑیاں ہیں جن کو چند موٹے موٹے انجن ادھر ادھر دھکیلتے رہتے ہیں۔ سلطانہ کو بعض اوقات یہ انجن سیٹھ معلوم ہوتے جو کبھی کبھی انبالہ میں اس کے ہاں آیا کرتے تھے پھر کبھی کبھی جب وہ کسی انجن کو آہستہ آہستہ گاڑیوں کی قطار کے پاس گزرتا دیکھتی تو اسے ایسا محسوس ہوتا کہ کوئی آدمی چکلے کے کسی بازار میں سے اوپر کوٹھوں کی طرف دیکھتا جا رہا ہے۔سلطانہ سمجھتی تھی کہ ایسی باتیں سوچنا دماغ کی خرابی کا باعث ہے، چنانچہ جب اس قسم کے خیالات اس کو آنے لگے تو اس نے بالکونی میں جانا چھوڑ دیا۔ خدا بخش سے اس نے بارہا کہا دیکھو، میرے حال پر رحم کرو۔ یہاں گھر میں رہا کرو ۔ میں سارا دن یہاں بیماروں کی طرح پڑی رہتی ہوں مگر اس نے ہر بار سلطانہ سے یہ کہہ کر اس کی تشفی کردی ”جان من.... میں باہر کمانے کی فکر کر رہا ہوں۔ اللہ نے چاہا تو چند دنوں میں بیڑا پار ہو جاۓ گا۔“پورے پانچ مہینے ہوگۓ تھے مگر ابھی تک نہ سلطانہ کا بیڑا پار ہوا تھا اور نہ خدا بخش کا۔محرم کا مہینہ آرہا تھا مگر سلطانہ کے پاس کالے کپڑے بنوانے کے لۓ کچھ بھی نہ تھا۔ مختار نے لیڈی ہیملٹن کی ایک نئی وضع کی قمیض بنوائی تھی جس کی آستینیں کالی جارجٹ کی تھیں۔ اس کے ساتھ میچ کرنے کے لۓ اس کے پاس کالی ساٹن کی شلوار تھی جو کاجل کی طرح چمکتی تھی۔ انور ی نے ریشمی جارجٹ کی ایک بڑی نفیس ساڑھی خریدی تھی۔ اس نے سلطانہ سے کہا تھا وہ اس ساڑھی کے نیچے سفید بوسکی کا کوٹ پہنے گی کیونکہ یہ نیا فیشن ہے۔ اس ساڑھی کے ساتھ پہننے کو انوری کالی مخمل کا ایک جوتا لائی تھی جو بڑا نازک تھا۔ سلطانہ نے جب یہ تمام چیزیں دیکھیں تو اس کو اس احساس نے بہت دکھ دیا کہ وہ محرم منانے کے لۓ ایسا لباس خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتی۔انوری اور مختار کے پاس یہ لباس دیکھ کر جب وہ گھر آئی تو اس کا دل بہت مغموم تھا۔ اسے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ایک پھوڑا سا اس کے اندر پیدا ہو گیا ہے۔ گھر بالکل خالی تھا۔ خدا بخش بھی حسب معمول باہر تھا۔ دیر تک وہ دری پر گاؤ تکیہ کو سر کے نیچے رکھے لیٹی رہی پر جب اس کی گردن اونچائی کے باعث اکڑ سی گئی تو وہ اٹھ کر بالکونی میں چلی گئی تاکہ غم افزا خیالات کو اپنے دماغ سے نکال دے۔سامنے پٹڑیوں پر گاڑیوں کے ڈبے کھڑے تھے۔ پر انجن کوئی بھی نہیں تھا۔ شام کا وقت تھا چھڑکاؤ ہوچکا تھا۔ اس لۓ گرد و غبار دب گیا تھا۔ بازار میں ایسے آدمی چلنے شروع ہو گۓ تھے جو تانک جھانک کرنے کے بعد چپ چاپ گھروں کا رخ کرتے ہیں۔ ایسے ہی ایک آدمی نے گردن اونچی کر کے سلطانہ کی طرف دیکھا۔سلطانہ مسکرا دی اور اس کو بھول گئی کیونکہ سامنے پٹڑیوں پر ایک انجن نمودار ہو گیا تھا۔ سلطانہ نے غور سے اس کی طرف دیکھنا شروع کیا اور آہستہ آہستہ یہ خیال دماغ سے نکالنے کی خاطر جب اس نے پھر سڑک کی طرف دیکھا تو وہی آدمی بیل گاڑیوں کے پاس کھڑا نظر آیا۔ وہی جس نے اس کی طرف للچائی نظروں سے دیکھا تھا۔ سلطانہ نے ہاتھ سے اسے اشارہ کیا۔ اس آدمی نے ادھر ادھر دیکھ کر ہاتھ کے اشارے سے پوچھا ”کدھر سے آؤں؟“ سلطانہ نے اسے راستہ بتا دیا۔ وہ آدمی تھوڑی دیر کھڑا رہا مگر بڑی پھرتی سے اوپر چلا آیا۔سلطانہ نے اسے دری پر بٹھایا جب وہ بیٹھ گیا تو اس نے سلسلہ گفتگو شروع کرنے کے لۓ کہا ” آپ اوپر آتے ہوۓ ڈر رہے تھے۔“ وہ آدمی یہ سن کر مسکرایا۔ ”تمہیں کیسے معلوم ہوا.... ڈرنے کی بات ہی کیا تھی؟“ اس پر سلطانہ نے کہا کہ ”یہ میں نے اس لۓ کہا کہ آپ دیر تک وہیں کھڑے رہے اور پھر کچھ سوچ کر ادھر آۓ“۔ وہ یہ سن کر مسکرا دیا ” تمہیں غلط فہمی ہوئی۔ میں تمہارے اوپر والے فلیٹ کی طرف دیکھ رہا تھا۔ وہاں کوئی عورت کھڑی ایک مرد کو ٹھینگا دکھا رہی تھی۔ مجھے یہ منظر پسند آیا پھر بالکونی میں سبز بلب روشن ہوا تو میں کچھ دیر کے لۓ اور ٹھہر گیا۔ سبز روشنی مجھے بہت پسند ہے۔ آنکھوں کو اچھی لگتی ہے۔ “ یہ کہہ کر اس نے کمرے کا جائزہ لینا شروع کردیا۔ پھر وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ سلطانہ نے پوچھا ” آپ جا رہے ہیں“۔ آدمی نے جواب دیا۔ ” نہیں میں تمہارے اس مکان کو دیکھنا چاہتا ہوں.... چلو مجھے تمام کمرے دکھا“۔سلطانہ نے اس کو تینوں کمرے ایک ایک کر کے دکھا دۓ۔ اس آدمی نے بالکل خاموشی سے ان کمروں کا جائزہ لیا۔ جب وہ دنوں پھر اسی کمرہ میں آگۓ جہاں پہلے بیٹھے تھے تو اس آدمی نے کہا ” میرا نام شنکر ہے“۔سلطانہ نے پہلی بار غور سے شنکر کی طرف دیکھا۔ وہ متوسط قد کا معمولی شکل و صورت کا انسان تھا۔ مگر اس کی آنکھیں غیر معمولی طور پر صاف و شفاف تھیں۔ کبھی کبھی ان میں ایک عجیب قسم کی چمک بھی پیدا ہوتی تھی۔ گھٹا اور کسرتی بدن تھا۔ کنپٹیوں پر اس کے بال سفید ہو رہے تھے۔ گرم پتلون پہنے تھا۔ سفید قمیض تھی جس کا کالر گردن پر سے اوپر کو اٹھا ہوا تھا۔شنکر کچھ اسی طرح دری پر بیٹھا ہوا تھا کہ معلوم ہوتا تھا شنکر کی بجاۓ سلطانہ گاہک ہے۔ اس احساس نے سلطانہ کو قدرے پریشان کردیا چنانچہ اس نے شنکر سے کہا ”فرمایۓ....“شنکر بیٹھا تھا، یہ سن کر لیٹ گیا۔ ” میں کیا فرماؤں، کچھ تم ہی فرماؤ، بلایا تم نے ہے مجھے۔“ جب سلطانہ کچھ نہ بولی تو اٹھ بیٹھا۔ ” میں سمجھا، لو اب مجھ سے سنو جو کچھ تم نے سمجھا ہے غلط ہے، میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو کچھ دے جایاکرتے ہیں۔ ڈاکٹروں کی طرح میری بھی فیس ہے۔ مجھے جب بلایا جاۓ تو فیس دینی ہی پڑتی ہے۔“سلطانہ یہ سن کر چکرا گئی۔ مگر اس کے باوجود اسے بے اختیار ہنسی آگئی۔”آپ کیا کام کرتے ہیں؟“شنکر نے جواب دیا ”یہی جو تم لوگ کرتے ہو۔“”کیا؟“”میں....میں.... کچھ بھی نہیں کرتی۔“”میں بھی کچھ نہیں کرتا۔“سلطانہ نے بھنا کر کہا ” یہ کوئی بات نہ ہوئی.... آپ کچھ نہ کچھ تو ضرور کرتے ہوں گے۔“شنکر نے بڑے اطمینان سے جواب دیا ” تم بھی کچھ نہ کچھ ضرورر کرتی ہوگی۔“”جھک مارتی ہوں۔“”تو آؤ دونوں جھک ماریں“۔”میں حاضر ہوں۔ مگر میں جھک مارنے کے دام کبھی نہیں دیا کرتا۔“”ہوش کی دوا کرو....یہ لنگر خانہ نہیں۔“”اور میں بھی والنٹیئر نہیں ہو!“سلطانہ یہاں رک گئی۔ اس نے پوچھا ” یہ والنٹیئر کون ہوتے ہیں؟“شنکر نے جواب دیا۔ ”الو کے پٹھے۔“”میں بھی الو کی پٹھی نہیں۔“”مگر وہ آدمی جو تمہارے ساتھ رہتا ہے ضرور الو کا پٹھا ہے۔“”کیوں؟“اس لۓ کہ وہ کئی دنوں سے ایک ایسے خدا رسیدہ فقیر کے پاس اپنی قسمت کھلوانے کی خاطر جا رہاہے جس کی اپنی قسمت زنگ لگے تالے کی طرح بند ہے۔“ یہ کہہ کر شنکر ہنسا۔اس پر سلطانہ نے کہا۔ ” تم ہندو ہو اس لۓ ہمارے ان بزرگوں کا مذاق اڑاتے ہو۔“شنکر مسکرا دیا۔ ”ایسی جگہوں پر ہندو مسلم کا سوال پیدا نہیں ہوا کرتے۔ بڑے بڑے پنڈت مولوی اگر یہاں آئیں تو وہ شریف آدمی بن جائیں۔“” جانے تم کیا اوٹ پٹانگ باتیں کر رہے ہو.... بولو، رہو گے اسی شرط پر جو میں پہلے بتا چکاہوں۔“سلطانہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ ” تو جاؤ رستہ پکڑو۔“شنکر آرام سے اٹھا۔ پتلون کی جیبوں میں اس نے اپنے دونوں ہاتھ ٹھونسے اور جاتے ہوۓ کہا۔ ” میں کبھی کبھی اس بازار سے گزرتا ہوں۔ جب بھی تمہیں میری ضرورت ہو، بلا لینا.... میں بہت کام کا آدمی ہوں۔“شنکر چلا گیا اور سلطانہ کالے لباس کو بھول کر دیر تک اس کے متعلق سوچتی رہی۔ اس آدمی کی باتوں نے اس کے دکھ کو بہت ہلکا کردیا تھا۔ اگر وہ انبالہ میں آیا ہوتا جہاں وہ خوش حال تھی تو اس نے کسی اور ہی رنگ میں ا س آدمی کو دیکھا ہوتا اور بہت ممکن ہے کہ اسے دھکے دے کر باہر نکال دیا ہوتا یہاں چونکہ وہ اداس رہتی تھی اس لۓ شنکر کی باتیں پسند آئیں۔
شام کو جب خدا بخش آیا تو سلطانہ نے اس سے پوچھا ”تم آج سارا دن کدھر غائب رہے ہو؟“خدا بخش تھک کر چور چور ہو رہا تھا کہنے لگا ” پرانے قلعے سے آرہا ہوں۔ وہاں ایک بزرگ کچھ دنوں سے ٹھہرے ہوۓ ہیں۔ انہی کے پاس ہر روز جاتا ہوں کہ ہمارے دن پھرجائیں۔“”کچھ انہوں نے تم سے کہا۔“”نہیں ابھی وہ مہربان نہیں ہوۓ.... پر سلطانہ، میں جو ان کی خدمت کر رہاہوں وہ اکارت کبھی نہیں جاۓ گی۔ اللہ کا فضل شاملِ حال رہا تو ضرور وارے نیارے ہوجائیں گے۔“سلطانہ کے دماغ میں محرم بنانے کا خیال سمایا ہوا تھا۔ خدا بخش سے رونی آواز میں کہنے لگی۔ سارا سارا دن باہر غائب رہتے ہو۔ میں یہاں پنجرے میں قید رہتی ہوں۔ نہ کہیں جا سکتی ہوں۔ محرم سر پر آگیا ہے۔ کچھ تم نے اس کی بھی فکر کی کہ مجھے کالے کپڑے چاہئیں۔گھر میں پھوٹی کوڑی تک نہیں۔ کنگنیاں تھیں سو وہ ایک ایک کرکے بک گئیں۔ اب تم ہی بتاؤ کہ کیاہوگا؟.... یوں فقیروں کے پیچھے کب تک مارے مارے پھرا کروگے۔ مجھے تو ایسا دکھائی دیتا ہے کہ یہاں دہلی میں خدا نے بھی ہم سے منہ موڑ لیا ہے۔ میری سنو تو اپنا کام شروع کر دو، کچھ تو سہارا ہو ہی جاۓ گا۔“خدابخش دری پر لیٹ گیا اورکہنے لگا۔ ”پر یہ کام شروع کرنے کے لۓ بھی تو تھوڑا بہت سرمایہ چاہۓ.... خدا کے لۓ اب ایسی دکھ بھری باتیں نہ کرو۔ مجھ سے برداشت نہیں ہو سکتیں۔ میں نے سچ مچ انبالہ چھوڑنے میں سخت غلطی کی تھی۔ پر جو کرتا ہے اللہ ہی کرتاہے اور ہماری بہتری ہی کےلۓ کرتاہے۔ کیا پتہ ہے کچھ دیر اور تکلیف برداشت کرنے کے بعد ہم....“سلطانہ نے بات کاٹ کر کہا۔”تم خدا کے لۓ کچھ کرو۔ چوری کرو یا ڈاکہ ڈالو پرمجھے شلوار کا کپڑا لا دو۔ میرے پاس سفید بوسکی کی ایک قمیض پڑی ہوئی ہے اس کو میں کالا رنگوا لوں گی۔ سفید شفون کا ایک دوپٹا بھی میرے پاس موجود ہے۔ وہی جو تم نے دیوالی پر مجھے لا کر دیا تھا۔ یہ بھی قمیض کے ساتھ ہی رنگوا لیا جاۓ گا۔ ایک صرف شلوار کی کسر ہے سو وہ تم کسی نہ کسی طرح پیدا کردو.... دیکھو تمہیں میری جان کی قسم، کسی نہ کسی طرح ضرور لا دو.... میری بھتی نہ کھاؤ اگر نہ لا۔“خدابخش اٹھ بیٹھا۔ ” اب تم خواہ مخواہ زور دۓ چلی جا رہی ہو.... میں کہاں سے لاؤں گا.... افیم کھانے کے لۓ تو میرے پاس پیسے نہیں۔“”کچھ بھی کرو مگر ساڑھے چار گز کالی شلوار کا کپڑا لا دو۔“”دعا کرو کہ آج رات ہی اللہ دو تین بندے بھیج دے۔“”لیکن تم کچھ نہیں کرو گے.... تم اگر چاہو تو ضرور اتنے پیسے پیدا کر سکتے ہو۔ جنگ سے پہلے ساٹن بارہ چودہ آنے گز مل جاتی تھی۔ اب سوا روپے گز کے حساب سے ملتی ہے ساڑھے چار گزوں پر کتنے روپے خرچ ہو جائیں گے؟“”اب تم کہتی ہو تو میں کوئی حیلہ کروں گا۔“ یہ کہہ کر خدا بخش اٹھا۔ ” لو اب ان باتوں کو بھول جاؤ۔ میں ہوٹل سے کھانا لاتا ہوں۔“
ہوٹل سے کھانا آیا۔ دونوں نے مل کر زہر مار کیا اور سوگۓ۔ صبح ہوئی۔ خدابخش پرانے قلعہ والے فقیر کے پاس چلا گیا۔ سلطانہ اکیلی رہ گئی۔ کچھ دیر لیٹی رہی۔ کچھ دیر سوئی رہی۔ ادھر ادھر کمروں میں ٹہلتی رہی۔ دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد اس نے اپنا شفون کا دوپٹہ اور سفید بوسکی کی قمیض نکالی اور نیچے لانڈری والے کو رنگنے کے لۓ دے آئی۔ کپڑے دھونے کے علاوہ وہاں رنگنے کا کام بھی ہوتا تھا۔
یہ کام کرنے کے بعد اس نے واپس آکر فلموں کی کتابیں پڑھیں جن میں اس کی دیکھی ہوئی فلموں کی کہانی اور گیت چھپے ہوۓ تھے۔ یہ کتابیں پڑھتے پڑھتے وہ سو گئی۔ جب اٹھی تو چار بج چکے تھے کیونکہ دھوپ آنگن میں موری کے پاس پہنچ چکی تھی۔ نہا دھو کر فارغ ہوئی تو گرم چادر اڑھ کر بالکونی میں آکھڑی ہوئی۔ قریباً ایک گھنٹہ سلطانہ بالکونی میں کھڑی رہی۔ اب شام ہو گئی تھی۔ بتیاں روشن ہو رہی تھیں۔ نیچے سڑک میں رونق کے آثار نظر آرہے تھے۔ سردی میں تھوڑی سی شدت ہو گئی تھی مگر سلطانہ کو یہ ناگوار معلوم نہ ہوا۔ وہ سڑک پر آتے جاتے ٹانگوں اور موٹروں کی طرف ایک عرصے سے دیکھ رہی تھی۔ دفعتاً اسے شنکر نظر آیا۔ مکان کے نیچے پہنچ کر اس نے گردن اونچی کی اور سلطانہ کی طرف دیکھ کر مسکرایا۔ سلطانہ نے غیر ارادی طور پر ہاتھ کا اشارہ کیا اور اسے اوپر بلا لیا۔جب شنکر اوپر آگیا تو سلطانہ بہت پریشان ہوئی کہ اسے کیا کہے۔ در اصل اس نے ایسے ہی بنا سوچے سمجھے اسے اشارہ کر دیا تھا۔ شنکر بے حد مطمئن تھا جیسے اس کا اپنا گھر ہے۔ چنانچہ بڑی بے تکلفی سے پہلے روز کی طرح گاؤ تکیہ کو سر کے نیچے رکھ کر لیٹ گیا۔ جب سلطانہ نے دیر تک اس سے کوئی بات نہ کی تو اس نے کہا ” تم سو دفعہ مجھے بلا سکتی ہو اور سو دفعہ ہی کہہ سکتی ہو کہ چلے جاؤ.... میں ایسی باتوں پر کبھی ناراض نہیں ہوا کرتا۔“سلطانہ شش و پنج میں گرفتار ہو گئی کہنے لگی۔ ”نہیں بیٹھو تمہیں جانے کو کون کہتا ہے۔شنکر اس پر مسکر ادیا۔ ”تو میری شرطیں تمہیں منظور ہیں۔“”کیسی شرطیں؟“ سلطانہ نے ہنس کر کہا ”کیا نکاح کر رہے ہو مجھ سے ؟“”نکاح اور شادی کیسی؟....نہ تم عمر بھر میں کسی سے نکاح کروگی، نہ میں.... یہ رسمیں ہم لوگوں کے لۓ نہیں....چھوڑو ان فضولیات کو، کوئی کام کی بات کرو۔“”بولو کیا کروں؟“”تم عورت ہو....کوئی ایسی بات کرو جس سے دو گھڑی دل بہل جاۓ.... اس دل میں صرف دکانداری ہی دکانداری نہیں، کچھ اور بھی ہے۔“سلطانہ ذہنی طور پر اب شنکر کو قبول کر چکی تھی، صاف صاف کہو تم مجھ سے کیا چاہتے ہو؟“”جو دوسرے چاہتے ہیں“۔ شنکر اٹھ کر بیٹھ گیا۔”تم میں اور دوسروں میں پھر فرق ہی کیا رہا۔“” تم میں اور مجھ میں کوئی فرق نہیں۔ ان میں اور مجھ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ایسی بہت سی باتیں ہوتی ہیں جو پوچھنا نہیں چاہئیں خود سمجھنا چاہئیں۔“سلطانہ نے تھوڑی دیر تک شنکر کی اس بات کو سمجھنے کی کوشش کی، پھر کہا ” میں سمجھ گئی ہوں!“”تو کہو کیا ارادہ ہے؟“”تم جیتے، میں ہاری، پر میں کہتی ہوں، آج تک کسی نے ایسی بات قبول نہ کی ہو گی۔“”تم غلط کہتی ہو.... اسی محلے میں تمہیں ایسی سادہ لوح عورتیں بھی مل جائیں گی جو یقین نہیں کریں گی کہ کیا عورت ایسی ذلت قبول کر سکتی ہے جو تم بغیر کسی احساس کے قبول کرتی رہی ہو لیکن ان کے یقین کرنے کے باوجود تم ہزاروں کی تعداد میں موجود ہو.... تمہارا نام سلطانہ ہے نا“۔”سلطانہ ہی ہے“۔شنکر اٹھ کھڑا ہوا اور ہنسنے لگا۔ ”میرا نام شنکرہے.... یہ نام بھی عجب اوٹ پنانگ ہوتے ہیں۔ چلو اندر چلیں۔“شنکر اور سلطانہ دری والے کمرے میں واپس آۓ تو دونوں ہنس رہے تھے جانے کس بات پر۔ جب شنکر جانے لگا تو سلطانہ نے کہا۔ شنکر تم میری ایک بات مانو گے؟“شنکر نے جواباً کہا۔ ” پہلے بات تو بتاؤ؟“سلطانہ کچھ جھنیپ سی گئی۔ ”تم کہوگے میں دام وصول کرنا چاہتی ہوں، مگر....“”کہو کہو، ....رک کیوں گئی ہو؟“سلطانہ نے جرأت سے کام لے کر کہا۔ ”بات یہ ہے کہ محرم آرہا ہے اور میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ میں کالی شلوار بنوا سکوں۔ یہاں کے سارے دکھڑے تو تم سن ہی چکے ہو۔ قمیض اور دوپٹہ میرے پاس موجود تھا جو میں نے آج رنگوانے کے لۓ دے دیاہے!“شنکر نے یہ سن کر کہا”تم چاہتی ہوکہ میں تمہیں کچھ روپے دوں جو تم کالی شلوار بنا سکو۔“سلطانہ نے فوراً ہی کہا۔ ” نہیں میرا مطلب یہ ہے کہ اگر ہو سکے تو تم مجھے ایک کالی شلوار بنوا دو۔“شنکر مسکرایا۔ ” میری جیب میں تو اتفاق ہی سے کبھی کچھ ہوتا ہے۔ بہر حال میں کوشش کروں گا۔ محرم کی پہلی تاریخ کو تمہیں یہ شلوار مل جاۓ گی۔ لو بس اب تو خوش ہو گئیں۔ پھر سلطانہ کے بندوں کی طرف دیکھ کر شنکر نے پوچھا ” کیا یہ بندے تم مجھے دے سکتی ہو؟“سلطانہ نے ہنس کر کہا ” تم انہیں کیا کرو گے۔ چاندی کے معمولی بندے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ پانچ روپے کے ہو نگے۔“اس پر شنکر نے ہنس کر کہا ”میں نے تم سے بندے مانگے ہیں ان کی قیمت نہیں پوچھی۔ بولو دیتی ہو؟“”لے لو“ یہ کہہ کر سلطانہ نے بندے اتار کر شنکر کو دے دۓ۔ اس کو بعد میں افسوس ہوا، لیکن شنکر جا چکا تھا۔
سلطانہ کو قطعاً یقین نہیں تھا کہ شنکر اپنا وعدہ پوراکرے گا۔ مگر آٹھ روز کے بعد محرم کی پہلی تاریخ کو صبح نو بجے دروازے پر دستک ہوئی۔ سلطانہ نے دروازہ کھولا تو شنکر کھڑا تھا۔ اخبارمیں لپٹی ہوئی چیز اس نے سلطانہ کو دی اور کہا ” ساٹن کی کالی شلوار ہے۔ دیکھ لینا شاید لمبی ہو.... اب میں چلتاہوں۔“
شنکر شلوار دے کر چلا گیا اور کوئی بات اس نے سلطانہ سے نہ کی۔ اس کی پتلون میں شکنیں پڑی ہوئی تھیں، بال بکھرے ہوۓ تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ابھی ابھی سو کر اٹھا ہے اور سیدھا ادھر ہی چلا آیاہے۔سلطانہ نے کاغذ کھولا۔ ساٹن کی کالی شلوار تھی۔ ایسی ہی جیسی کہ وہ مختار کے پاس دیکھ کر آئی تھی۔ سلطانہ بہت خوش ہوئی۔ بندوں اور اس سودے کا جو افسوس اسے ہوا تھا، اس شلوار نے اور شنکر کی وعدہ ایفائی نے دور کردیا۔
دوپہر کو وہ نیچے لانڈری والے سے اپنی رنگین قمیض اور دوپٹہ لے آئی۔ تینوں کالے کپڑے جب اس نے پہن لۓ تو دروازے پر دستک ہوئی۔ سلطانہ نے دروازہ کھولا تو مختار اندر داخل ہوئی۔ اس نے سلطانہ کے تینوں کپڑوں کی طرف دیکھا اور کہا۔ ”قمیض اور دوپٹہ تو رنگا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ پر یہ شلوار نئی ہے، کب بنوائی؟“سلطانہ نے جواب دیا”آج ہی درزی لایا ہے۔“ یہ کہتے ہوۓ اس کی نظریں مختار کے کانوں پر پڑیں۔ ” یہ بندے تم نے کہاں سے لۓ؟“مختار نے جواب دیا ” آج ہی منگواۓ ہیں۔“اس کے بعد دونوں کو تھوڑی دیر خاموش رہنا پڑا۔

काली शालावार

साादत हसन मनटो


दहली से आने से पहले वह अनबालह छानी में थी जहां की गोरे इस के गाहक थे। उन गोरों से मलने जलने के बाास वह अनगरीज़ी के दस पनदरह जमले सीख गी थी। उन को वह आम गफ़तगो में इस्तेमाल नहीं करती थी लीकन जब वह यहां आी और इस का कारोबार न चला तो एक रोज़ास ने अपनी पड़ोसन तमनचह जान से कहा। ” दस लीफ़ वीरी बीड। यानी यह ज़नदगी बहत बरी हे जबकह खाने ही को नहीं मलता।
अनबालह छानी में इस का धनदा बहत अच्चा चलता था छानी के गोरे शराब पी कर इस के पास आजाते थे और वह तीन चार घनटों में ही आठ दस गोरों को नपटा कर बीस तीस रोपे पीदा करती थी। यह गोरे इस के हम वतनों के मक़ाबले में अछे थे। इस में कोई शक नहीं कि वह एसी ज़बान बोलते थे जस का मतलब सलतानह की समझ में नहीं आता था मगर उन की ज़बान से यह लाालमी इस के हक़ में बहत अछी साबत होती थी। अगर वह इस से कुछ राएत चाहते तो वह कहह दिया करती थी। साहब हमारी समझ में तमहारी बात नहीं आती। और अगर वह इस से ज़रूरत से ज़यादह छीड़ छाड़ करते तो वह अपनी ज़बान में गालयां दीनी शुरू करदीती थी। वह हीरत में इस के मनह की तरफ़ दीखते तो वह कहती। साहब ! तुम एक दम अलो का पठा हे हरामज़ाद हे समझा। यह कहते वक़्त वह लहजह में सख़ती पीदा न करती बलकह बड़े पयार के साथ उन से बातीं करती। गोरे हनस दीते और हनसते वक़्त वह सलतानह को बालकल अलो के पठे दखाई दीते।मगर यहां दहली में वह जब से आी थी एक भी गोरा इस के यहां नहीं आया था तीन महीने इस को हिन्दोस्तान के इस शहर में रहते हो ग थे जहां इस ने यह सना था कि बड़े लाट साहब रहते हैं मगर सिर्फ़ चाय आदमी इस के पास आ थे। सिर्फ़ छ यानी महीने में दो और उन चाय गाहगों से खुद झोट न बलवा साड़े अठारह रोपे वसोल क थे। तीन रोपे से ज़यादह पर कोई न मानता था सलतानह ने उन में से पाँच आदमयों को अपना रीट दस रोपे बतलएा था मगर ताजब की बात है कि उन में से हर एक ने यही कहा भी हम तीन रोपे से एक कोड़ी ज़यादह नहीं दीं गे। जाने कया बात थी कि उन में से हर एक ने असे तीन रोपे के क़ाबल समझा। चनानचह जब छटा आया तो इस ने ख़ोद इस कहा। दीखो में तीन रोपे एक टीम के लों गी इस से एक धीला तुम कम कहो तो में न लों गी। अब तमहारी मरजी हो तो रहो वरनह जा। चठे आदमी ने यह सुन कर तकरार न की और इस के हां ठहर गया। जब दोसरे कमरे में दरवाज़ह बनद करके अपना कोट अतारने लगा तो सलतानह ने कहा लए एक रोपे दोध का। इस ने एक रोपीह तो न दिया लीकन न बादशाह की चमकती हवी चोनी जीब में से नकाल कर इस को दे दी और सलतानह ने भी चपके से ले ली कि चलो जो आया माल ग़नीमत हे।
साड़े अठारह रोपे माहवार तीन महीनों मीं बीस रोपे माहवार तो इस कोठे का करएह था जस को मालिक अनगरीज़ी ज़बान में फ़लीट कहता था इस फ़लीट में एसा पाख़ानह था जस में ज़नजीर खीनचने से सारी गनदगी पानी के ज़ोर से एक दम नल में ग़ाब हो जाती थी और बड़ा शोर होता था शुरू शुरू में तो इस शोर ने असे बहत डरएा था पहले दिन जब वह रफ़ा हाजत के ल इस पाख़ानह में गी तो इस की कमर में शदत का दर्द हो रहा था फ़ारग़ हो कर जब अठने लगी तो इस ने लटकती हवी ज़नजीर का सहारा ले लिया इस ज़नजीर को दीख कर इस ने यह ख़याल कया चोनकह यह मकान खास तोर से हम लोगों की रहाश के ल तयार कक ग हीं यह ज़नजीर इस ल लटकाई गी है कि अठते वक़्त तकलीफ़ न हो और सहारा मल जएा करे। मगर जोनही ज़नजीर पकड़ कर इस ने अठना चाहा ओपर खट खट सी हवी और फर एक दम पानी इस शोर के साथ बाहर नकला कि डर के मारे इस के मनह से चीख़ नकल गी।खुद बख़श दोसरे कमरे में अपना फ़ोटो गराफ़ी कासामान दरसत कर रहा था और एक साफ़ बोतल में हाईडरो कोनीन डाल रहा था कि इस ने सलतानह की चीख़ सनी। दौर कर बाहर नकला और सलतानह से कहने लगा ” कया हवा चीख़ तमहारी थी।सलतानह का दिल धड़क रहा था यह मवा पीख़ानह है कया बीच में यह रील गाड़यों की तरह ज़नजीर कया लटका रखी है मीरी कमर में दर्द था में ने कहा चलो इस का सहारा ले लों गी। पर इस मवी ज़नजीर को छीड़ना था कि एसा धमाका हवा कि में तुम से कया कहों।इस पर खुद बख़श बहत हनसा था और इस ने सलतानह को इस पीख़ानह की बाबत सब कुछ बता दिया था कि यह न फ़ीशन का है जस में ज़नजीर हलाने से सब गनदगी नीचे ज़मीन में धनस जाती हे।
ख़दाबख़श और सलतानह का आपस में कैसे समबनध हवा यह एक लमबी कहानी है खुद बख़श रओलपनडी का था अनटरनस पास करने के बाद इस ने लारी चलाना सीखा। चनानचह चार बरस तक वह रओलपनडी और कशमीर के दरमयान लारी चलाने का काम करता रहा। इस के बाद कशमीर में इस की दोसती एक औरत से हो गी। इस को भगाकर वह लाहोर ले आया। लाहोर में चोनकह इस को कोई काम न मला इस ल इस ने इस औरत को पीशे पर बठा दया। दो तीन बरस तक यह सलसलह चलता रहा और वह औरत किसी और के साथ भग गी। खुद बख़श को मालूम हवा कि वह अनबालह में है वह इस की तलाश में अनबालह आया। इस को सलतानह मल गी। सलतानह ने इस को पसन्द कया चनानचह दोनों का समबनध हो गया।
ख़दाबख़श के आने से एक दम सलतानह का कारोबार चमक अठा। औरत चोनकह जाईफ़ अलाातक़ाद थी इस ल इस ने समझा कि खुद बख़श बड़ा भागवान है जस के आने से अतनी तरक़ी होगी चनानचह इस ख़ोश अातक़ादी ने खुद बख़श की वक़ात इस की नज़रों में और भी बर्ह दी।
खुद बख़श आदमी महनती था वह सारा दिन हाथ पर हाथ धर कर बीठना पसन्द नहीं करता था चनानचह इस ने एक फ़ोटो गराफ़र से दोसती पीदाकी जो रीलवे असटीशन के बाहर मिन्त कीमरे से फ़ोटो खीनचा करता था इस से इस ने फ़ोटो खीनचना सीख लिया फर सलतानह से साथ रोपे ले कर कीमरह भी ख़रीद लिया आहसतह आहसतह एक परदह भी बनोएा। दो करसयां ख़रीदीं और फ़ोटो धोने का सब सामान ले कर इस ने अलीहदह अपना काम शुरू करदया।
काम चाल नकला चनानचह इस ने थोड़े ही अरसह बाद अपना अडा अनबालह छानी में क़ाम करदया। यहां वह गोरों के फ़ोटो खीनचता रहता। एक महीने के अन्दर अन्दर इस की छानी के मतादद लोगों से वाक़फ़ीत होगी चनानचह वह सलतानह को वहीं ले गया। यहां छानी में खुद बख़श के ज़रयाे से की गोरे सलतानह के मसतक़ल गाहक बन ग और इस की आमदनी पहले से दो गनी हो गी।
सलतानह ने कानों के ल बनदे ख़रीदे साड़े पाँच तोलह की आठ कनगनयां भी बनवालीं दस पनदरह अछी अछी साड़यां भी जमा करलीं। घर में फ़रनीचर वग़ीरह भी आगया। क़सह मख़तसर यह कि अनबालह छानी में वह बड़ी ख़ोश हाल थी। मगर एका एकी न जाने खुद बख़श के दिल में कया समाई कि इस ने दहली जाने की ठान ली। सलतानह अनकार कैसे करती जबकह वह खुद बख़श को अपने ल बहत मबारक ख़याल करती थी। इस ने खुशी खुशी दहली जाना क़ुबूल करलया बलकह इस ने यह भी सोचा कि अतने बड़े शहर में जहां लाट साहब रहते हैं इस का धनदा और भी अच्चा चले गा। अपनी सहीलयों से वह दहली शहर की तारीफ़ सुन चकी थी। फर वहां हजरत निज़ाम अलदीन ओलयाकी ख़ानक़ाह थी जस से असे बे हद्द अक़ीदत थी चनानचह जलदी जलदी घर का भारी सामान बीच बाच कर खुद बख़श के साथ दहली आगी। यहां पहनच कर खुद बख़श ने बीस रोपे माहवार पर एक छोटा सा फ़लीट ले लिया जस में वह दोनों रहने लगे।एक ही क़िस्म के न मकानों की लमबी सी क़तार सड़क के साथ साथ चली गी थी। मयोनसपल कमीटी ने शहर का यह हसह खास कसबयों के ल मक़रर करदिया था ताकह वह शहर में जगह जगह अपने अडे न बनाईं। नीचे दकानीं थीं और ओपर दो मनज़लह रहाशी फ़लीट थे। चोनकह सब अमारतीं एक ही डीज़ान की थीं इस ल शुरू शुरू में सलतानह को अपना फ़लीट तलाश करने में बहत दक़त महसूस होती थी पर जब नीचे लानडरी वाली ने अपना बोरड घर की पीशानी पर लगा दिया तो इस को एक पकी नशानी मल गी। ” यहां मीले कपड़ों की धलाई की जाती हे। यह बोरड पड़ते ही वह अपना फ़लीट तलाश करलया करती थी।असी तरह इस ने और बहत सी नशानयां क़ाम करली थीं मसला बड़े बड़े हरोफ़ में जहां कोलों की दकान लखा था वहां इस की सहीली हीरा बाली रहती थी जो कभी कभी रीडयो में गनेय जएा करती थी। जहां ” शरफ़ाके खाने का अाली अनतज़ाम हे लखा था वहां इस की दूसरी सहीली मख़तार रहती थी। नवाड़ के कारख़ाने के ओपर अनोरी रहती थी जो इस कारख़ाने के सीठ के पास मलाज़म थी चोनकह सीठ साहब को रात के वक़्त कारख़ाने की दीख भाल करना होती थी इस ल वह रात को अनोरी के पास ही रहते थे।
दकान खोलते ही गाहक थोड़े ही आते हैं चनानचह जब एक महीने तक सलतानह बीकार रही तो इस ने यही सोच कर अपने दिल को तसली दी पर जब दो महीने गज़र ग और कोई इस के कोठे पर न आया तो असे बहत तशवीश हवी। इस ने खुद बख़श से कहा। ” कयाबात है खुद बख़श दो महीने आज पोरे हो ग हैं हमें यहां आ हो किसी ने अधर का रख़ ही नहीं कया मानती हों आज कुल बाज़ार बहत मनदा है पर अतना भी तो नहीं कि महीने भर में कोई शक्ल ही दीखने न आ। खुद बख़श को भी यह बात बहत अरसे से खटक रही थी मगर वह ख़ामोश था पर जब सलतानह ने ख़ोद बात छीड़ी तो इस ने कहा ” में की दिन से इस की बाबत सोच रहा हों। एक बात मीरी समझ में आी है वह यह कि लूग बाग जंग धनदों में पड़ने की वजह से भग कर दोसरे धनदों में अधर का रासतह भूल ग या फर यह हो सकता है कि ....“वह इस से आगे कुछ कहने ही वालाथा कि सीड़यों पर किसी के चड़ने की आवाज़ आी। खुद बख़श और सलतानह दोनों इस आवाज़ की तरफ़ मतोजह हो । थोड़ी दीर के बाद दसतक हवी। खुद बख़श ने लपक कर दरवाज़ह खोला। एक आदमी अन्दर दाखिल हवा। यह पहला गाहक था जस से तीन रोपे में सोदा ते हवा। इस के बाद पाँच और आ यानी तीन महीने में छ जिन से सलतानह ने सिर्फ़ साड़े अठारह रोपे वसोल क।
बीस रोपे माहवार तो फ़लीट के करएह में चले जाते थे। पानी का टीकस और बजली का बल जुदा था इस के अलओह घर के दोसरे ख़रच थे खाना पीना कपड़े लते। दवा और दारो और आमदन कुछ भी नहीं। साड़े अठारह रोपे तीन महीनों में आीं तो असे आमदन तो नहीं कहह सकते। सलतानह परीशान हो गी। साड़े पाँच तोले की आठ कनगनयां जो इस ने अनबालह में बनवाईं थीं आहसतह आहसतह बक गीं। आख़री कनगनी की जब बारी आी तो इस ने खुद बख़श से कहा। ” तुम मीरी सनो और चलो वापिस अनबालह यहां कया धराहे। भी हो गा पर हमें तो यह शहर रास नहीं। तमहाराकाम वहां खूब चलता था चलो वहीं चलते हीं जो नुक़सान हवा है इस को अपना सर सदक़ह समझो। यह आख़री कनगनी बीच कर आ में असबाब वग़ीरह बानध कर तयार रखती हों। आज रा त की गाड़ी से यहां से चाल दीं गे।ख़दाबख़श ने कनगनी सलतानह के हाथ से ले ली और कहा नहीं जान मन अनबालह अब नहीं जाईं गे यहीं दहली में रह कर कमाईं गे। यह तमहारी चोड़यां सब की सब यहीं वापिस आीं गी। अललह पर भरोसह रखो वह बड़ा कारसाज़ है यहां पर भी कोई न कोई असबाब बन ही दे गा।सलतानह चप हो रही चनानचह आख़री कनगनी भी हाथ से अतर गी। बच्चे हाथ दीख कर इस को बहत रनज होता था पर कया करती पीट को भी आख़र किसी हीले भरना था।
जब पाँच महीने गज़र ग और आमदन ख़रच के मक़ाबले में चोथाई से भी कुछ कम रही तो सलतानह की परीशानी और ज़यादह बड़ गी। खुद बख़श भी सारा दिन अब घर से ग़ाब रहने लगा। सलतानह को इस का भी दख था इस में कोई शक नहीं कि पड़ोस में इस की दो तीन मलने वालयां मौजूद थीं जिन के साथ वह वक़्त काट सकती थी। पर हर रोज उन के यहां जाना और घनटों बीठे रहना इस को बहत बुरा लगता था चनानचह रफ़तह रफ़तह इस ने उन सहीलयों से मलना जलना बालकल तरक करदया। सारा दिन वह अपने सनसान मकान में बीठी रहती कभी छालीह काटती रहती कभी अपने पराने और फटे पराने कपड़ों को सीती रहती और कभी बालकोनी में आकर जनगले के पास खड़ी हो जाती थी और सामने रीलवे शीड में साकत और मतहरक अनजनों की तरफ़ घनटों बे मतलब दीखती रहती।
सड़क की दूसरी तरफ़ माल गोदाम था जो इस कोने से इस कोने तक फीला हवा था दाहने हाथ को लोहे की छत के नीचे बड़ी बड़ी गानठीं पड़ी रहती थीं और हर क़िस्म के माल असबाब के ढीर लगे रहते थे। बाईं हाथ को खला मीदान था जस में बे शमार रील की पटड़यां बछी हवी थीं। धोप में लोहे की यह पटड़यां चमकतीं तो सलतानह अपने हाथों की तरफ़ दीखती जिन पर नीली नीली रगीं बालकल उन पटड़यों की तरह अभरी रहती थीं। इस लमबे और खले मीदान में हर वक़्त अनजन और गाड़यां चलती रहती थीं। कभी अधर कभी अधर। उन अनजनों और गाड़यों की छक छक और फक फक की सदाईं गोनजती रहती थीं। सुबह सवीरे जब वह आथ कर बालकोनी में आती तो एक अजीब समां असे नज़र आता। धनदलके में अनजनों के मनह से गाड़ा गाड़ा धवां नकलता और गदले आसमान की जानब मोटे और भारी आदमयों की तरह अठता दखाई दीता था भाप के बड़े बड़े बाल भी एक अजीब शोर के साथ पटड़यों से अठते थे और होले होले हवा के अन्दर घल मल जाते थे फर कभी कभी जब वह गाड़ी के किसी डबे को जसे अनजन ने धका दे कर छोड़ दिया हों अकीले पटड़यों पर चलता दीखती तो असे अपना ख़याल आता। वह सोचती कि असे भी किसी ने पटड़ी पर धका दे कर छोड़ दिया है और ख़ोद बख़ोद जारही है दोसरे लूग कानटे बदल रहे हैं और वह चली जा रही हे न जाने कहां। फर एक रोज एसा आ गा कि जब इस धके का ज़ोर आहसतह आहसतह खतम होजा गा और वह कहीं रुक जा गी किसी एसे मक़ाम पर जो इस का दीखा भाला न हो।यों तो बे मतलब घनटों रील की उन टीड़ी पटड़यों और ठहरे और चलते हो अनजनों की तरफ़ दीखती रहती थी पर तरह तरह के ख़यात इस के दमाग़ में आते रहते थे। अनबालह छानी में जब वह रहती थी तो असटीशन के पास ही इस का मकान था मगर वहां इस ने कभी उन चीज़ों को एसी नज़रों से नहीं दीखा था अब तोकभी कभी इस के दमाग़ में यह भी ख़याल आता कि जो सामने रील की पटड़यों का जाल सा बछा हवा है और जगह जगह से भाप और धवां आथ रहाहे एक बहत बड़ा चकलह है बहत सी गाड़यां हैं जिन को चनद मोटे मोटे अनजन अधर अधर धकीलते रहते हैं सलतानह को बाज ओक़ात यह अनजन सीठ मालूम होते जो कभी कभी अनबालह में इस के हां आया करते थे फर कभी कभी जब वह किसी अनजन को आहसतह आहसतह गाड़यों की क़तार के पास गज़रता दीखती तो असे एसा महसूस होता कि कोई आदमी चकले के किसी बाज़ार में से ओपर कोठों की तरफ़ दीखता जा रहा हे।सलतानह समझती थी कि एसी बातीं सोचना दमाग़ की ख़राबी का बाास हे चनानचह जब इस क़िस्म के ख़यालात इस को आने लगे तो इस ने बालकोनी में जाना छोड़ दया। खुद बख़श से इस ने बारहा कहा दीखो मीरे हाल पर रहम करो। यहां घर में रहा करो । में सारा दिन यहां बीमारों की तरह पड़ी रहती हों मगर इस ने हर बार सलतानह से यह कहह कर इस की तशफ़ी कर दी जान मन में बाहर कमाने की फ़िक्र कर रहा हों। अललह ने चाहा तो चनद दनों में बीड़ा पार हो जा गा।पोरे पाँच महीने होग थे मगर अभी तक न सलतानह का बीड़ा पार हवा था और न खुद बख़श का।महरम का महीना आरहा था मगर सलतानह के पास काले कपड़े बनवाने के ल कुछ भी न था मख़तार ने लीडी हीमलटन की एक नी वजा की क़मीज बनवाई थी जस की आसतीनीं काली जारजट की थीं। इस के साथ मीच करने के ल इस के पास काली साटन की शलवार थी जो काजल की तरह चमकती थी। अनोर य ने रीशमी जारजट की एक बड़ी नफ़ीस साड़ी ख़रीदी थी। इस ने सलतानह से कहा था वह इस साड़ी के नीचे सफ़ीद बोसकी का कोट पहने गी कयोनकह यह नया फ़ीशन है इस साड़ी के साथ पहनने को अनोरी काली मख़मल का एक जोता लाई थी जो बड़ा नाज़क था सलतानह ने जब यह तमाम चीज़ीं दीखीं तो इस को इस अहसास ने बहत दख दिया कि वह महरम मनाने के ल एसा लिबास ख़रीदने की असतताात नहीं रखती।अनोरी और मख़तार के पास यह लिबास दीख कर जब वह घर आी तो इस का दिल बहत मग़मोम था असे एसा मालूम होता था कि एक फोड़ा सा इस के अन्दर पीदा हो गया है घर बालकल ख़ाली था खुद बख़श भी हसब मामोल बाहर था दीर तक वह दरी पर गा तकीह को सर के नीचे रखे लीटी रही पर जब इस की गर्दन ओनचाई के बाास अकड़ सी गी तो वह आथ कर बालकोनी में चली गी ताकह घाम अफ़ज़ा ख़यालात को अपने दमाग़ से नकाल दे।सामने पटड़यों पर गाड़यों के डबे खड़े थे। पर अनजन कोई भी नहीं था शाम का वक़्त था छड़का होचका था इस ल गरद व ग़बार दब गया था बाज़ार में एसे आदमी चलने शुरू हो ग थे जो तानक झानक करने के बाद चप चाप घरों का रख़ करते हैं एसे ही एक आदमी ने गर्दन ओनची कर के सलतानह की तरफ़ दीखा।सलतानह मसकरा दी और इस को भूल गी कयोनकह सामने पटड़यों पर एक अनजन नमोदार हो गया था सलतानह ने ग़ोर से इस की तरफ़ दीखना शुरू कया और आहसतह आहसतह यह ख़याल दमाग़ से नकालने की ख़ातर जब इस ने फर सड़क की तरफ़ दीखा तो वही आदमी बील गाड़यों के पास खड़ा नज़र आया। वही जस ने इस की तरफ़ ललचाई नज़रों से दीखा था सलतानह ने हाथ से असे अशारह कया। इस आदमी ने अधर अधर दीख कर हाथ के अशारे से पोछा कधर से आं सलतानह ने असे रासतह बता दया। वह आदमी थोड़ी दीर खड़ा रहा मगर बड़ी फरती से ओपर चला आया।सलतानह ने असे दरी पर बठएा जब वह बीठ गया तो इस ने सलसलह गफ़तगो शुरू करने के ल कहा ” आप ओपर आते हो डर रहे थे। वह आदमी यह सुन कर मसकरएा। तमहीं कैसे मालूम हवा डरने की बात ही कया थी इस पर सलतानह ने कहा कि यह में ने इस ल कहा कि आप दीर तक वहीं खड़े रहे और फर कुछ सोच कर अधर आ। वह यह सुन कर मसकरा दिया ” तमहीं ग़लत फ़हमी हवी। में तमहारे ओपर वाली फ़लीट की तरफ़ दीख रहा था वहां कोई औरत खड़ी एक मर्द को ठीनगा दखा रही थी। मझे यह मन्ज़र पसन्द आया फर बालकोनी में सबज़ बलब रोशन हवा तो में कुछ दीर के ल और ठहर गया। सबज़ रोशनी मझे बहत पसन्द है आँखों को अछी लगती है “ यह कहह कर इस ने कमरे का जाज़ह लीना शुरू करदया। फर वह आथ खड़ा हवा। सलतानह ने पोछा ” आप जा रहे हीं। आदमी ने जवाब दया। ” नहीं में तमहारे इस मकान को दीखना चाहता हों चलो मझे तमाम कमरे दखा।सलतानह ने इस को तीनों कमरे एक एक कर के दखा द। इस आदमी ने बालकल ख़ामोशी से उन कमरों का जाज़ह लिया जब वह दनों फर असी कमरह में आग जहां पहले बीठे थे तो इस आदमी ने कहा ” मेरा नाम शनकर हे।सलतानह ने पहली बार ग़ोर से शनकर की तरफ़ दीखा। वह मतोसत क़द का मामोली शक्ल व सूरत का इन्सान था मगर इस की आनखीं ग़ीर मामोली तोर पर साफ़ व शफ़ाफ़ थीं। कभी कभी उन में एक अजीब क़िस्म की चमक भी पीदा होती थी। घटा और कसरती बदन था कनपटयों पर इस के बाल सफ़ीद हो रहे थे। गरम पतलून पहने था सफ़ीद क़मीज थी जस का कालर गर्दन पर से ओपर को अठा हवा था।शनकर कुछ असी तरह दरी पर बीठा हवा था कि मालूम होता था शनकर की बजा सलतानह गाहक है इस अहसास ने सलतानह को क़दरे परीशान करदिया चनानचह इस ने शनकर से कहा फ़रमएशनकर बीठा था यह सुन कर लीट गया। ” में कया फ़रमां कुछ तुम ही फ़रमा बलएा तुम ने है मझे। जब सलतानह कुछ न बोली तो आथ बीठा। ” में समझा लो अब मझ से सनो जो कुछ तुम ने समझा है ग़लत हे में उन लोगों में से नहीं हों जो कुछ दे जएाकरते हैं डाकटरों की तरह मीरी भी फ़ीस है मझे जब बलएा जा तो फ़ीस दीनी ही पड़ती हे।सलतानह यह सुन कर चकरा गी। मगर इस के बओजोद असे बे अख़तयार हनसी आगी।आप कया काम करते हींशनकर ने जवाब दिया यही जो तुम लूग करते हो।कयामींमीं कुछ भी नहीं करती।मीं भी कुछ नहीं करता।सलतानह ने भना कर कहा ” यह कोई बात न हवी आप कुछ न कुछ तो जरोर करते हों गे।शनकर ने बड़े अतमीनान से जवाब दिया ” तुम भी कुछ न कुछ जरोरर करती होगी।झक मारती हों।तो आ दोनों झक मारीं।मीं हाजर हों। मगर में झक मारने के दाम कभी नहीं दिया करता।होश की दवा करवीह लनगर ख़ानह नहीं।ओर में भी वालनटीर नहीं होसलतानह यहां रुक गी। इस ने पोछा ” यह वालनटीर कौन होते हींशनकर ने जवाब दया। अलो के पठे।मीं भी अलो की पठी नहीं।मगर वह आदमी जो तमहारे साथ रहता है जरोर अलो का पठा हे।कयोंइस ल कि वह की दनों से एक एसे खुद रसीदह फ़क़ीर के पास अपनी क़िस्मत खलवाने की ख़ातर जा रहाहे जस की अपनी क़िस्मत ज़नग लगे ताले की तरह बनद हे। यह कहह कर शनकर हनसा।इस पर सलतानह ने कहा। ” तुम हनदो हो इस ल हमारे उन बज़रगों का मज़ाक़ अड़ाते हो।शनकर मसकरा दया। एसी जगहों पर हनदो मसलम का सवाल पीदा नहीं हवा करते। बड़े बड़े पनडत मोलवी अगर यहां आीं तो वह शरीफ़ आदमी बन जाईं।” जाने तुम कया ओट पटानग बातीं कर रहे हो बोलो रहो गे असी शरत पर जो में पहले बता चकाहों।सलतानह आथ खड़ी हवी। ” तो जा रसतह पकड़ो।शनकर आराम से अठा। पतलून की जीबों में इस ने अपने दोनों हाथ ठोनसे और जाते हो कहा। ” में कभी कभी इस बाज़ार से गज़रता हों। जब भी तमहीं मीरी ज़रूरत हो बला लीना में बहत काम का आदमी हों।शनकर चला गया और सलतानह काले लिबास को भूल कर दीर तक इस के मतालक़ सोचती रही। इस आदमी की बातों ने इस के दख को बहत हलका करदिया था अगर वह अनबालह में आया होता जहां वह ख़ोश हाल थी तो इस ने किसी और ही रनग में अ स आदमी को दीखा होता और बहत ममकन है कि असे धके दे कर बाहर नकाल दिया होता यहां चोनकह वह उदास रहती थी इस ल शनकर की बातीं पसन्द आीं।
शाम को जब खुद बख़श आया तो सलतानह ने इस से पोछा तम आज सारा दिन कधर ग़ाब रहे होखुद बख़श थक कर चोर चोर हो रहा था कहने लगा ” पराने क़लाे से आरहा हों। वहां एक बुज़र्ग कुछ दनों से ठहरे हो हैं अनही के पास हर रोज जाता हों कि हमारे दिन फरजाईं।कछ उन्होने ने तुम से कहा।नहीं अभी वह महरबान नहीं हो पर सलतानह में जो उन की ख़दमत कर रहाहों वह अकारत कभी नहीं जा गी। अललह का फ़जल शामल हाल रहा तो जरोर वारे नयारे होजाईं गे।सलतानह के दमाग़ में महरम बनाने का ख़याल समएा हवा था खुद बख़श से रोनी आवाज़ में कहने लगी। सारा सारा दिन बाहर ग़ाब रहते हो। में यहां पनजरे में क़ीद रहती हों। न कहीं जा सकती हों। महरम सर पर आगया है कुछ तुम ने इस की भी फ़िक्र की कि मझे काले कपड़े चाहीं।घर में फोटी कोड़ी तक नहीं। कनगनयां थीं सौ वह एक एक करके बक गीं। अब तुम ही बता कि कयाहोगा यों फ़क़ीरों के पीछे कब तक मारे मारे फरा करोगे। मझे तो एसा दखाई दीता है कि यहां दहली में खुद ने भी हम से मनह मोड़ लिया है मीरी सनो तो अपना काम शुरू कर दो कुछ तो सहारा हो ही जा गा।ख़दाबख़श दरी पर लीट गया ओरकहने लगा। पर यह काम शुरू करने के ल भी तो थोड़ा बहत सरमएह चाह खुद के ल अब एसी दख भरी बातीं न करो। मझ से बरदाशत नहीं हो सकतीं। में ने सच मच अनबालह छोड़ने में सख्त ग़लती की थी। पर जो करता है अललह ही करताहे और हमारी बहतरी ही केल करताहे। कया पतह है कुछ दीर और तकलीफ़ बरदाशत करने के बाद हमसलतानह ने बात काट कर कहा।तम खुद के ल कुछ करो। चोरी करो या डाकह डालो परमझे शलवार का कपड़ा ला दो। मीरे पास सफ़ीद बोसकी की एक क़मीज पड़ी हवी है इस को में काला रनगवा लों गी। सफ़ीद शफ़ोन का एक दोपटा भी मीरे पास मौजूद है वही जो तुम ने दयवाली पर मझे ला कर दिया था यह भी क़मीज के साथ ही रनगवा लिया जा गा। एक सिर्फ़ शलवार की कसर है सौ वह तुम किसी न किसी तरह पीदा करदो दीखो तमहीं मीरी जान की क़सम किसी न किसी तरह जरोर ला दो मीरी भती न खा अगर न ला।ख़दाबख़श आथ बीठा। ” अब तुम ख़वाह मख़वाह ज़ोर द चली जा रही हो में कहां से लां गा अफ़ीम खाने के ल तो मीरे पास पीसे नहीं।कछ भी करो मगर साड़े चार गज़ काली शलवार का कपड़ा ला दो।दाा करो कि आज रात ही अललह दो तीन बनदे भीज दे।लीकन तुम कुछ नहीं करो गे तुम अगर चाहो तो जरोर अतने पीसे पीदा कर सकते हो। जंग से पहले साटन बारह चोदह आने गज़ मल जाती थी। अब सवा रोपे गज़ के हसाब से मलती है साड़े चार गज़ों पर कतने रोपे ख़रच हो जाईं गेअब तुम कहती हो तो में कोई हीलह करों गा। यह कहह कर खुद बख़श अठा। ” लो अब उन बातों को भूल जा। में होटल से खाना लाता हों।
होटल से खाना आया। दोनों ने मल कर ज़हर मर कया और सोग। सुबह हवी। ख़दाबख़श पराने क़लाह वाली फ़क़ीर के पास चला गया। सलतानह अकीली रह गी। कुछ दीर लीटी रही। कुछ दीर सवी रही। अधर अधर कमरों में टहलती रही। दोपहर का खाना खाने के बाद इस ने अपना शफ़ोन का दोपटह और सफ़ीद बोसकी की क़मीज नकाली और नीचे लानडरी वाली को रनगने के ल दे आी। कपड़े धोने के अलओह वहां रनगने का काम भी होता था।
यह काम करने के बाद इस ने वापिस आकर फिल्मों की कताबीं पड़ीं जिन में इस की दीखी हवी फिल्मों की कहानी और गीत छपे हो थे। यह कताबीं पड़ते पड़ते वह सौ गी। जब अठी तो चार बज चके थे कयोनकह धोप आनगन में मोरी के पास पहनच चकी थी। नहा धो कर फ़ारग़ हवी तो गरम चादर अड़ कर बालकोनी में आखड़ी हवी। क़रीबा एक घंटा सलतानह बालकोनी में खड़ी रही। अब शाम हो गी थी। बतयां रोशन हो रही थीं। नीचे सड़क में रोनक़ के आसार नज़र आरहे थे। सरदी में थोड़ी सी शदत हो गी थी मगर सलतानह को यह नागवार मालूम न हवा। वह सड़क पर आते जाते टानगों और मोटरों की तरफ़ एक अरसे से दीख रही थी। दफ़ाता असे शनकर नज़र आया। मकान के नीचे पहनच कर इस ने गर्दन ओनची की और सलतानह की तरफ़ दीख कर मसकरएा। सलतानह ने ग़ीर अरादी तोर पर हाथ का अशारह कया और असे ओपर बला लया।जब शनकर ओपर आगया तो सलतानह बहत परीशान हवी कि असे कया कहे। डर असल इस ने एसे ही बन सोचे समझे असे अशारह कर दिया था शनकर बे हद्द मतमन था जीसे इस का अपना घर है चनानचह बड़ी बे तकलफ़ी से पहले रोज की तरह गा तकीह को सर के नीचे रख कर लीट गया। जब सलतानह ने दीर तक इस से कोई बात न की तो इस ने कहा ” तुम सौ दफ़ाह मझे बला सकती हो और सौ दफ़ाह ही कहह सकती हो कि चले जा में एसी बातों पर कभी नाराज नहीं हवा करता।सलतानह शश व पनज में गरफ़तार हो गी कहने लगी। नहीं बीठो तमहीं जाने को कौन कहता हे।शनकर इस पर मसकर अदया। तो मीरी शरतीं तमहीं मनज़ोर हीं।कीसी शरतीं सलतानह ने हनस कर कहा कया नकाह कर रहे हो मझ से ؟“नकाह और शादी कीसीनह तुम उमर भर में किसी से नकाह करोगी न मीं यह रसमीं हम लोगों के ल नहींछोड़ो उन फ़जोलयात को कोई काम की बात करो।बोलो कया करोंतम औरत होकवी एसी बात करो जस से दो घड़ी दिल बहल जा इस दिल में सिर्फ़ दकानदारी ही दकानदारी नहीं कुछ और भी हे।सलतानह ज़हनी तोर पर अब शनकर को क़ुबूल कर चकी थी साफ़ साफ़ कहो तुम मझ से कया चाहते होजो दोसरे चाहते हीं। शनकर आथ कर बीठ गया।तम में और दोसरों में फर फ़रक़ ही कया रहा।” तुम में और मझ में कोई फ़रक़ नहीं। उन में और मझ में ज़मीन आसमान का फ़रक़ है एसी बहत सी बातीं होती हैं जो पोछना नहीं चाहीं ख़ोद समझना चाहीं।सलतानह ने थोड़ी दीर तक शनकर की इस बात को समझने की कोशिश की फर कहा ” में समझ गी होंतो कहो कया अरादह हेतम जीते में हारी पर में कहती हों आज तक किसी ने एसी बात क़ुबूल न की हो गी।तम ग़लत कहती हो असी महले में तमहीं एसी सादह लोह अोरतीं भी मल जाईं गी जो यक़ीन नहीं करीं गी कि कया औरत एसी ज़लत क़ुबूल कर सकती है जो तुम बग़ीर किसी अहसास के क़ुबूल करती रही हो लीकन उन के यक़ीन करने के बओजोद तुम हज़ारों की तादाद में मौजूद हो तमहारा नाम सलतानह है ना।सलतानह ही हे।शनकर आथ खड़ा हवा और हनसने लगा। मीरा नाम शनकरहे यह नाम भी अजब ओट पनानग होते हैं चलो अन्दर चलीं।शनकर और सलतानह दरी वाली कमरे में वापिस आ तो दोनों हनस रहे थे जाने किस बात पर। जब शनकर जाने लगा तो सलतानह ने कहा। शनकर तुम मीरी एक बात मानो गेशनकर ने जवाबा कहा। ” पहले बात तो बतासलतानह कुछ झनीप सी गी। तम कहोगे में दाम वसोल करना चाहती हों मगरकहो कहो रक कयों गी होसलतानह ने जरत से काम ले कर कहा। बात यह है कि महरम आरहा है और मीरे पास अतने पीसे नहीं हैं कि में काली शलवार बनवा सकों। यहां के सारे दखड़े तो तुम सुन ही चके हो। क़मीज और दोपटह मीरे पास मौजूद था जो में ने आज रनगवाने के ल दे दयाहेशनकर ने यह सुन कर कहातम चाहती होकह में तमहीं कुछ रोपे दों जो तुम काली शलवार बन सको।सलतानह ने फ़ोरा ही कहा। ” नहीं मेरा मतलब यह है कि अगर हो सके तो तुम मझे एक काली शलवार बनवा दो।शनकर मसकरएा। ” मीरी जीब में तो अतफ़ाक़ ही से कभी कुछ होता है बहर हाल में कोशिश करों गा। महरम की पहली तारीख़ को तमहीं यह शलवार मल जा गी। लो बस अब तो ख़ोश हो गीं। फर सलतानह के बनदों की तरफ़ दीख कर शनकर ने पोछा ” कया यह बनदे तुम मझे दे सकती होसलतानह ने हनस कर कहा ” तुम उन्हें कया करो गे। चानदी के मामोली बनदे हैं ज़यादह से ज़यादह पाँच रोपे के हो नगे।इस पर शनकर ने हनस कर कहा मीं ने तुम से बनदे मानगे हैं उन की क़ीमत नहीं पोछी। बोलो दीती होले लो यह कहह कर सलतानह ने बनदे अतार कर शनकर को दे द। इस को बाद में अफ़सोस हवा लीकन शनकर जा चका था।
सलतानह को क़ताा यक़ीन नहीं था कि शनकर अपना वादह पोराकरे गा। मगर आठ रोज के बाद महरम की पहली तारीख़ को सुबह नौ बजे दरवाज़े पर दसतक हवी। सलतानह ने दरवाज़ह खोला तो शनकर खड़ा था अख़बारमीं लपटी हवी चीज़ इस ने सलतानह को दी और कहा ” साटन की काली शलवार है दीख लीना शएद लमबी हो अब में चलताहों।
शनकर शलवार दे कर चला गया और कोई बात इस ने सलतानह से न की। इस की पतलून में शकनीं पड़ी हवी थीं बाल बखरे हो थे। एसा मालूम होता था कि अभी अभी सौ कर अठा है और सीधा अधर ही चला आयाहे।सलतानह ने कागज खोला। साटन की काली शलवार थी। एसी ही जीसी कि वह मख़तार के पास दीख कर आी थी। सलतानह बहत ख़ोश हवी। बनदों और इस सोदे का जो अफ़सोस असे हवा था इस शलवार ने और शनकर की वादह एफ़ाई ने दूर करदया।
दोपहर को वह नीचे लानडरी वाली से अपनी रनगीन क़मीज और दोपटह ले आी। तीनों काले कपड़े जब इस ने पहन ल तो दरवाज़े पर दसतक हवी। सलतानह ने दरवाज़ह खोला तो मख़तार अन्दर दाखिल हवी। इस ने सलतानह के तीनों कपड़ों की तरफ़ दीखा और कहा। क़मीज और दोपटह तो रनगा हवा मालूम होता है पर यह शलवार नी हे कब बनवाईसलतानह ने जवाब दयाआज ही दरज़ी लएा हे। यह कहते हो इस की नज़रीं मख़तार के कानों पर पड़ीं। ” यह बनदे तुम ने कहां से लमख़तार ने जवाब दिया ” आज ही मनगवा हीं।इस के बाद दोनों को थोड़ी दीर ख़ामोश रहना पड़ा।

Friday, July 10, 2009

Short Stories By Sadat Hasan Manto in Urdu Hindi Thanda Gosht


سعادت حسن منٹو

ٹھنڈا گوشت

ایشر سنگھ جونہی ہوٹل کے کمرے میں داخل ہوا، کلونت کور پلنگ سے اٹھی۔ اپنی تیز تیز آنکھوں سے اس کر طرف گھور کے دیکھا اور دروازے کی چٹخنی بند کر دی۔ رات کے بارہ بج چکے تھے، شہر کا مضافات ایک عجیب پراسرار خاموشی میں غرق تھا۔
کلونت کور پلنگ پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئی۔ ایشر سنگھ جو غالباّ اپنے پراگندہ خیالات کے الجھے ہوئے دھاگے کھول رہا تھا، ہاتھ میں‌ کرپان لیے ایک کونے میں کھڑا تھا۔ چند لمحات اسی طرح خاموشی میں گزر گئے۔ کلونت کور کو تھوڑی دیر کے بعد اپنا آسن پسند نہ آیا اور دونوں ٹانگیں پلنگ سے نیچے لٹکا کر ہلانے لگی۔ ایشر سنگھ پھر بھی کچھ نہ بولا۔
کلونت کور بھرے بھرے ہاتھ پیروں والی عورت تھی۔ چوڑے چکلے کولہے، تھل تھل کرنے والے گوشت سے بھرپور کچھ زیادہ ہی اوپر کو اٹھا ہوا سینہ، تیز آنکھیں، بالائی ہونٹ پر بالوں کا سرمئی غبار، ٹھوڑی کی ساخت سے پتہ چلتا تھا کہ بڑے دھڑلے کی عورت ہے۔
ایشر سنگھ سر نیوڑھائے ایک کونے میں چپ چاپ کھڑا تھا، سر پر اس کی کس کر باندھی ہوئی پگڑی ڈھیلی ہو رہی تھی، اس کے ہاتھ جو کرپان کو تھامے ہوئے تھے، تھوڑے تھوڑے لرزاں تھے، مگر اس کے قد و قامت اور خد و خال سے پتہ چلتا تھا کہ وہ کلونت کور جیسی عورت کے لیے موزوں ترین مرد ہے۔
چند اور لمحات جب اسی طرح خاموشی میں گزر گئے تو کلونت کور چھلک پڑی۔ لیکن تیز تیز آنکھوں کو نچا کر وہ صرف اس قدر کہہ سکی “ ایشر سیاں“
ایشر سنگھ نے گردن اٹھا کر کلونت کور کی طرف دیکھا، مگر اس کی نگاہوں کی تاب نہ لا کر منہ دوسری طرف موڑ لیا۔
کلونت کور چلائی “ ایشر سیاں “ لیکن فوراّ ہی آواز بھینچ لی اور پلنگ سے اٹھ کر اس کی جانب جاتے ہوئے بولی “ کہاں رہے تم اتنے دن؟“
ایشر سنگھ نے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری “ مجھے معلوم نہیں۔“
کلونت کور بھنا گئی “ یہ بھی کوئی ماں یا جواب ہے۔“
ایشر سنگھ نے کرپان ایک طرف پھینک دی اور پلنگ پر لیٹ گیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا یہ وہ کئی دنوں کا بیمار ہے۔ کلونت کور نے پلنگ کی طرف دیکھا جو اب ایشر سنگھ سے لبالب بھرا تھا۔ اس کے دل میں ہمدردی کا جذبہ پیدا ہو گیا۔ چنانچہ اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر اس نے بڑے پیار سے پوچھا “ جانی، کیا ہوا ہے تمہیں؟“
ایشر سنگھ چھت کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اس سے نگاہیں ہٹا کر اس نے کلونت کور کے مانوس چہرے کو ٹٹولنا شروع کیا۔ “ کلونت “
آواز میں درد تھا، کلونت ساری کی ساری سمٹ کر اپنے بالائی ہونٹ میں آ گئی۔ “ ہاں جانی۔“ کہہ کر وہ اس کو دانتوں سے کاٹنے لگی۔
ایشر سنگھ نے پگڑی اتار دی۔ کلونت کور کو سہارا لینے والے نگاہوں سے دیکھا۔ اس کے گوشت بھرے کولہے پر زور سے دھپا مارا اور سر کو جھٹکا دے کر اپنے آپ سے کہا “ یہ کڑی یا دماغ خراب ہے۔“
جھٹکا دینے سے اس کے کیس کھل گئے۔ کلونت کور انگلیوں سے ان میں کنگھی کرنے لگی۔ ایسا کرتے ہوئے اس نے بڑے پیار سے پوچھا “ ایشر سیاں کہاں رہے تم اتنے دن؟“
“ بُرے کی ماں کے گھر۔“ ایشر سنگھ نے کلونت کور کو گھور کے دیکھا اور دفعتہّ دونوں ہاتھوں سے اس کے ابھرے ہوئے سینے کو مسلنے لگا۔ “ قسم واہگورو کی، بڑی جاندار عورت ہو۔“
کلونت کور نے ایک ادا کے ساتھ ایشر سنگھ کے ہاتھ ایک طرف جھٹک دیئے اور پوچھا “ تمہیں میری قسم، بتاؤ کہاں رہے ------ شہر گئے تھے؟“
ایشر سنگھ نے ایک ہی لپیٹ میں اپنے بالوں کا جوڑا بناتے ہوئے جواب دیا۔ “ نہیں “
کلونت کور چڑ گئی، “ نہیں تم ضرور شہر گئے تھے ------ اور تم نے بہت سا روپیہ لوٹا ہے جو مجھ سے چھپا رہے ہو۔“
“ وہ اپنے باپ کا تخم نہ ہو جو تم سے جھوٹ بولے۔“
کلونت کور تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہو گئی، لیکن فوراّ ہی بھڑک اٹھی۔
“ لیکن میری سمجھ میں نہیں آتا، اس رات تمہیں ہوا کیا ------ اچھے بھلے میرے ساتھ لیٹے تھے، مجھے تم نے وہ سارے گہنے پہنا رکھے تھے جو تم شہر سے لوٹ کر لائے تھے۔ میری بھپیاں لے رہے تھے، پر جانے ایک دم تمہیں کیا ہوا، اٹھے کپڑے پہن کر باہر نکل گئے۔“
ایشر سنگھ کا رنگ زرد ہو گیا۔ کلونت کور نے یہ تبدیلی دیکھتے ہی کہا، “ دیکھا کیسے رنگ نیلا پڑ گیا ------ ایشر سیاں، قسم واہگورو کی، ضرور کچھ دال میں کالا ہے۔“
“ تیری جان کی قسم، کچھ بھی نہیں۔“
ایشر سنگھ کی آواز بے جان تھی۔ کلونت کور کا شبہ اور زیادہ مضبوط ہو گیا۔ بالائی ہونٹ بھینچ کر اس نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا، “ ایشر سیاں، کیا بات ہے، تم وہ نہیں ہو جو آج سے آٹھ روز پہلے تھے؟“
ایشر سنگھ ایک دم اٹھ بیٹھا جیسے کسی نے اس پر حملہ کیو تھا۔ کلونت کور کو اپنے تنومند بازوؤں میں سمیٹ کر اس نے پوری قوت کے تھا بھنبھوڑنا شروع کر دیا۔ “ جانی میں وہی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔ گُھٹ گُھٹ پا جپھیاں، تیری نکلے ہڈاں دی گرمی۔۔۔۔۔۔۔۔“
کلونت کور نے کوئی مزاحمت نہ کی، لیکن وہ شکایت کرتی رہی، “ تمہیں اس رات ہو کیا گیا تھا؟“
“ بُرے کی ماں کا وہ ہو گیا تھا۔“
“ بتاؤ گے نہیں؟“
“کوئی بات ہو تو بتاؤں۔“
“ مجھے اپنے ہاتھوں سے جلاؤ اگر جھوٹ بولو۔“
ایشر سنگھ نے اپنے بازو اس کی گردن میں ڈال دیئے اور ہونٹ اس کے ہونٹوں میں گاڑ دیئے۔ مونچھوں کے بال کلونت کور کے نتھنوں میں گھسے تو اسے چھینک آ گئی۔ دونوں ہنسنے لگے۔
ایشر سنگھ نے اپنی صدری اتار دی اور کلونت کور کو شہوانی نظروں سے دیکھ کر کہا، “ آ جاؤ ایک بازی تاش کی ہو جائے۔“
کلونت کور کے بالائی ہونٹ پر پسینے کی ننھی ننھی بوندیں پھوٹ آئیں۔ ایک ادا کے ساتھ اس نے اپنی آنکھوں کی پتلیاں گھمائیں اور کہا، “ چل دفعان ہو۔“
ایشر سنگھنے اس کے بھرے ہوئے کولہے پر زور سے چٹکی بھری۔ کلونت کور تڑپ کر ایک طرف ہٹ گئی۔ “ نہ کر ایشر سیاں، میرے درد ہوتا ہے۔“
ایشر سنگھ نے آگے بڑھ کر کلونت کور کا بالائی ہونٹ اپنے دانتوں تلے دبا لیا اور کچکچانے لگا۔ کلونت کور بالکل پگھل گئی۔ ایشر سنگھ نے اپنا کرتہ اتار کے پھینک دیا اور کہا “ لو پھر ہو جائے ترپ کی چال۔۔۔۔۔۔۔۔“
کلونت کور کا بالائی ہونٹ کپکپانے لگا۔ ایشر سنگھ نے دونوں ہاتھوں سے کلونت کور کی قمیص کا گھیرا پکڑا اور جس طرح بکرے کی کھال اتارتے ہیں، اسی طرح اس کو اتار کر ایک طرف رکھ دیا۔ پھر اس نے گھور کے اس کے ننگے بدن کو دیکھا اور زور سے بازو پر چٹکی لیتے ہوئے کہا۔ “ کلونت، قسم واہگورو کی بڑی کراری عورت ہے تو۔“
کلونت کور اپنے بازو پر اُبھرتے ہوئے لال دھبے کو دیکھنے لگی، “ بڑا ظالم ہے تو ایشر سیاں۔“
ایشر سنگھ اپنی گھنی مونچھوں میں مسکرایا، “ ہونے دے آج ظلم۔“ اور یہ کہہ کر اس نے مزید ظلم ڈھانے شروع کر کئے۔ کلونت کور کا بالائی ہونٹ دانتوں تلے کچکچایا۔ کان کی لوؤں کو کاٹا۔ اُبھرے ہوئے سینے کو بھنبھوڑا۔ بھرے ہوئے کولہوں پر آواز پیدا کرنے والے چانٹے مارے۔ گالوں کے منہ بھر بھر کے بوسے لیے۔ چوس چوس کر اس کا سارا سینہ تھوکوں سے لتیھڑ دیا۔ کلونت کور تیز آنچ پر چڑھی ہوئی ہانڈی کے طرح اُبلنے لگی۔ لیکن ایشر سنگھ ان تمام حیلوں کے باوجود خود میں حرارت پیدا نہ کر سکا۔ جتنے گُر اور جتنے داؤ اسے یاد تھے سب کے سب اس نے پٹ جانے والے پہلوان کی طرح استعمال کر دیئے پر کوئی کارگر نہ ہوا۔ کلونت کور نے جس کے بدن کے سارے تار تن کر خودبخود بج رہے تھے غیر ضروری چھیڑ چھاڑ سے تنگ آ کر کہا، “ ایشر سیاں، کافی پھینٹ چکا، اب پتا پھینک۔“
یہ سنتے ہی ایشر سنگھ کے ہاتھ سے جیسے تاش کی ساری گڈی نیچے پھسل گئی۔ ہانپتا ہوا وہ کلونت کور کے پہلو میں لیٹ گیا اور اس کے ماتھے پر سرد پسینے کے لیپ ہونے لگے۔ کلونت کور نے اسے گرمانے کی بہت کوشش کی، مگر ناکام رہی۔ اب تک سب کچھ منہ سے کہے بغیر ہی ہوتا رہا تھا، لیکن جب کلونت کور کے منتظر بہ عمل اعضا کو سخت ناامیدی ہوئی تو وہ جھلا کر پلنگ سے نیچے اتر گئی۔ سامنے کھونٹی پر چادر پڑی تھی۔ اس کو اتار کر اس نے جلدی جلدی اوڑھ کر اور نتھنے پھلا کر بپھرے ہوئے لہجے میں کہا، “ ایشر سیاں، وہ کون حرامزادی ہے جس کے پاس تو اتنے دن رہ کر آیا ہے اور جس نے تجھ کو نچوڑ ڈالا ہے؟“
ایشر سنگھ پلنگ پر لیٹا ہانپتا رہا اور اس نے کوئی جواب نہ دیا۔
کلونت کور غصے سے اُبلنے لگی، “ میں پوچھتی ہوں، کون ہے وہ چڈو ------ کون ہے وہ الفتی ------ کون ہے وہ چور پتہ ؟“
ایشر سنگھ نے تھکے ہوئے لہجے میں جواب دیا “ کوئی بھی نہیں کلونت، کوئی بھی نہیں۔“
کلونت کور نے اپنے بھرے ہئے کولہوں پر ہاتھ رکھ کر ایک عزم کے ساتھ کہا “ ایشر سیاں، میں آج جھوٹ سچ جان کے رہوں گی ------ واہگور جی کی قسم ------ کیا اس کی تہہ میں کوئی عورت نہیں؟“
ایشر سنگھ نے کچھ کہنا چاہا، مگر کلونت کور نے اس کی اجازت نہ دی، “ قسم کھانے سے پہلے سوچ لے کہ میں بھی سردار نہال سنگھ کی بیٹی ہوں ------ تکا بوٹی کر دوں گی اگر تو نے جھوٹ بولا ------ لے اب کھا واہگورو کی قسم ------ کیا اس کی تہہ میں کوئی عورت نہیں ؟“
ایشر سنگھ نے بڑے دکھ کے ساتھ اثبات میں سر ہلایا۔ کلونت کور بالکل دیوانی ہو گئی۔ لپک کر کونے میں سے کرپان اٹھائی، میان کو کیلے کے چھلکے کی طرح اتار کر ایک طرف پھینکا اور ایشر سنگھ پر وار کر دیا۔
آن کی آن میں لہو کے فوارے چھوٹ پڑے۔ کلونت کور کی اس سے بھی تسلی نہ ہوئی تو اس نے وحشی بلیوں کی طرح ایشر سنگھ کے کیس نوچنے شروع کر دیئے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ اپنی نامعلوم سوت کو موٹی موٹی گالیاں دیتی رہی۔ ایشر سنگھ نے تھوڑی دیر کے بعد نقاہت بھری التجا کی “ جانے دے اب کلونت، جانے دے۔“
آواز میں بلا کا درد تھا، کلونت کور پیچھے ہٹ گئی۔
خون ایشر سنگھ کے گلے سے اڑ اڑ کر اس کی مونچھوں پر گر رہا تھا۔ اس نے اپنے لرزاں ہونٹ کھولے اور کلونت کور کی طرف شکریے اور گِلے کی ملی جلی نگاہوں سے دیکھا۔
“ میری جان، تم نے بہت جلدی کی ------ لیکن جو ہوا ٹھیک ہے۔“
کلونت کور کا حسد پھر بھڑکا، “ مگر وہ کون ہے؟ تمہاری ماں۔“
لہو ایشر سنگھ کی زبان تک پہنچ گیا۔ جب اس نے اس کا ذائقہ چکھا تو اس کے بدن میں جھرجھری سی دوڑ گئی۔
“ اور میں ۔۔۔۔۔۔ اس میں ۔۔۔۔۔۔ بھینی یا چھ آدمیوں کو قتل کر چکا ہوں ۔۔۔۔۔۔ اس کرپان سے۔۔۔۔۔۔“
کلونت کور کے دماغ میں صرف دوسری عورت تھی۔ “ میں پوچھتی ہوں، کون ہے وہ حرامزادی؟“
ایشر سنگھ کی آنکھیں دھندلا رہی تھیں۔ ایک ہلکی سی چمک ان میں پیدا ہوئی اور اس نے کلونت کور سے کہا، “ گالی نہ دے اس بھڑوی کو۔“
کلونت چلائی، “ میں پوچھتی ہوں، وہ ہے کون؟“
ایشر سنگھ کے گلے میں آواز رندھ گئی، “ بتاتا ہوں۔“ یہ کہہ کر اس نے اپنی گردن پر ہاتھ پھیرا اور اس پر اپنا جیتا خون دیکھ کر مسکرایا، “ انسان ماں یا بھی ایک عجیب چیز ہے۔“
کلونت کور اس کے جواب کی منتظر تھی، “ ایشر سیاں تو مطلب کی بات کر۔“
ایشر سنگھ کی مسکراہٹ اس کی لہو بھری مونچھوں میں اور زیادہ پھیل گئی ------ “ مطلب ہی کی بات کر رہا ہوں ۔۔۔۔۔۔ گلا چِرا ہے ماں یا میرا ۔۔۔۔۔۔ اب دھیرے دھیرے ہی ساری بات بتاؤں گا۔“
اور جب وہ بات بتانے لگا تو اس کے ماتھے پر ٹھنڈے پسینے کے لیپ ہونے لگے۔ “ کلونت، میری جان ۔۔۔۔۔۔ میں تمہیں نہیں بتا سکتا، میرے ساتھ کیا ہوا۔۔۔۔۔۔ انسان کڑی یا بھی ایک عجیب چیز ہے۔۔۔۔۔۔ شہر میں لوٹ مچی تو سب کی طرح میں نے بھی اس میں حصہ لیا لیکن ایک بات تمہیں نہ بتائی۔
ایشر سنگھ نے گھاؤ میں درد محسوس کیا اور کراہنے لگا۔ کلونت کور نے اس کی طرف توجہ نہ دی اور بڑی بے رحمی سے پوچھا “ کون سی بات؟“
ایشر سنگھ نے مونچھوں پر جمتے ہوئے لہو کو پھونک کے ذریعے سے اڑاتے ہوئے کہا “ جس مکان پر ۔۔۔۔۔۔ میں نے دھاوا بولا تھا ۔۔۔۔۔۔ اس میں سات ۔۔۔۔۔۔ اس میں سات آدمی تھے ۔۔۔۔۔۔۔ چھ میں نے قتل کر دیئے ۔۔۔۔۔۔ اسی کرپان سے جس سے تو نے مجھے ۔۔۔۔۔۔ چھوڑ اسے ۔۔۔۔۔۔ سن ۔۔۔۔۔۔ ایک لڑکی تھی بہت سندر ۔۔۔۔۔۔ اس کو اٹھا کر میں اپنے ساتھ لے آیا۔“
کلونت کور خاموش سنتی رہی۔ ایشر سنگھ نے ایک بار پھر پھونک مار کے مونچھوں پر سے لہو اڑایا۔ “ کلونت جانی میں تم سے کیا کہوں کتنی سندر تھی ۔۔۔۔۔۔ میں اسے بھی مار ڈالتا، پر میں نے کہا، “ نہیں ایشر سیاں، کلونت کور کے تو ہر روز مزے لیتا ہے، یہ میوہ بھی چکھ دیکھ۔“
کلونت کور نے صرف اس قدر کہا “ ہوں ۔۔۔۔۔۔ “
اسے میں کندھے پر ڈال کر چل دیا ۔۔۔۔۔۔ راستے میں ۔۔۔۔۔۔ کیا کہہ رہا تھا میں ۔۔۔۔۔۔ ہاں راستے میں ۔۔۔۔۔۔ نہر کی پٹری کے پاس، تھوہر کی جھاڑیوں تلے میں نے اسے لٹا دیا ۔۔۔۔۔۔ پہلے سوچا کہ پھینٹوں، لیکن پھر خیال آیا کہ نہیں ۔۔۔۔۔۔ یہ کہتے کہتے ایشر کی زبان سوکھ گئی۔
کلونت کور نے تھوک نگل کر اپنا حلق تر کیا اور پوچھا۔ “ پھر کیا ہوا؟“
ایشر سنگھ کے حلق سے بمشکل یہ الفاظ نکلے، “ میں نے ۔۔۔۔۔۔ پتا پھینکا ۔۔۔۔۔۔ لیکن ۔۔۔۔۔۔ لیکن “
اس کی آواز ڈوب گئی۔
کلونت کور نے اسے جھنجھوڑا، “ پھر کیا ہوا؟“
ایشر سنگھ نے اپنی بند ہوتی ہوئی آنکھیں کھولیں اور کلونت کور کے جسم کی طرف دیکھا جس کی بوٹی بوٹی تھرک رہی تھی “ وہ مری ہوئی تھی ۔۔۔۔۔۔ لاش تھی ۔۔۔۔۔۔ بالکل ٹھنڈا گوشت ۔۔۔۔۔۔ جانی مجھے اپنا ہاتھ دے ۔۔۔۔۔۔ “
کلونت کور نے اپنا ہاتھ ایشر سنگھ کے ہاتھ پر رکھا جو برف سے بھی زیادہ ٹھنڈا تھا۔


۔۔۔۔۔۔ ختم شد ۔۔۔۔۔۔

साादत हसन मनटो

ठनडा गोशत

एशर सिंह जोनही होटल के कमरे में दाखिल हवा कलोनत कोर पलनग से अठी। अपनी तीज़ तीज़ आँखों से इस कर तरफ़ घोर के दीखा और दरवाज़े की चटख़नी बनद कर दी। रात के बारह बज चके थे शहर का मजाफ़ात एक अजीब परासरार ख़ामोशी में ग़रक़ था।
कलोनत कोर पलनग पर आलती पालती मर कर बीठ गी। एशर सिंह जो ग़ालबा अपने परागनदह ख़यालात के अलझे हवे धागे खोल रहा था हाथ मीं करपान लिये एक कोने में खड़ा था चनद लमहात असी तरह ख़ामोशी में गज़र गे। कलोनत कोर को थोड़ी दीर के बाद अपना आसन पसन्द न आया और दोनों टानगीं पलनग से नीचे लटका कर हलाने लगी। एशर सिंह फर भी कुछ न बोला।
कलोनत कोर भरे भरे हाथ पीरों वाली औरत थी। चोड़े चकले कोलहे थल थल करने वाली गोशत से भरपोर कुछ ज़यादह ही ओपर को अठा हवा सीनह तीज़ आनखीं बालाई होनट पर बालों का सरमी ग़बार ठोड़ी की साख़त से पतह चलता था कि बड़े धड़ले की औरत हे।
एशर सिंह सर नयोड़ाे एक कोने में चप चाप खड़ा था सर पर इस की किस कर बानधी हवी पगड़ी ढीली हो रही थी इस के हाथ जो करपान को थामे हवे थे थोड़े थोड़े लरज़ां थे मगर इस के क़द व क़ामत और ख़द व ख़ाल से पतह चलता था कि वह कलोनत कोर जीसी औरत के लिये मोज़ों तरीन मर्द हे।
चनद और लमहात जब असी तरह ख़ामोशी में गज़र गे तो कलोनत कोर छलक पड़ी। लीकन तीज़ तीज़ आँखों को नचा कर वह सिर्फ़ इस क़दर कहह सकी “ एशर सयां
एशर सिंह ने गर्दन अठा कर कलोनत कोर की तरफ़ दीखा मगर इस की नगाहों की ताब न ला कर मनह दूसरी तरफ़ मोड़ लया।
कलोनत कोर चलाई “ एशर सयां “ लीकन फ़ोरा ही आवाज़ भीनच ली और पलनग से आथ कर इस की जानब जाते हवे बोली “ कहां रहे तुम अतने दन
एशर सिंह ने ख़शक होनटों पर ज़बान फीरी “ मझे मालूम नहीं।
कलोनत कोर भना गी “ यह भी कोई म या जवाब हे।
एशर सिंह ने करपान एक तरफ़ फीनक दी और पलनग पर लीट गया। एसा मालूम होता था यह वह की दनों का बीमार है कलोनत कोर ने पलनग की तरफ़ दीखा जो अब एशर सिंह से लबालब भरा था इस के दिल में हमदरदी का जजबा पीदा हो गया। चनानचह इस के माथे पर हाथ रख कर इस ने बड़े पयार से पोछा “ जानी कया हवा है तमहीं
एशर सिंह छत की तरफ़ दीख रहा था इस से नगाहीं हटा कर इस ने कलोनत कोर के मानोस चहरे को टटोलना शुरू कया। “ कलोनत “
आवाज़ में दर्द था कलोनत सारी की सारी समट कर अपने बालाई होनट में आ गी। “ हां जानी। कहह कर वह इस को दानतों से काटने लगी।
एशर सिंह ने पगड़ी अतार दी। कलोनत कोर को सहारा लीने वाली नगाहों से दीखा। इस के गोशत भरे कोलहे पर ज़ोर से धपा मारा और सर को झटका दे कर अपने आप से कहा “ यह कड़ी या दमाग़ ख़राब हे।
झटका दीने से इस के कीस खल गे। कलोनत कोर अनगलयों से उन में कनघी करने लगी। एसा करते हवे इस ने बड़े पयार से पोछा “ एशर सयां कहां रहे तुम अतने दन
“ बुरे की म के घर। एशर सिंह ने कलोनत कोर को घोर के दीखा और दफ़ातह दोनों हाथों से इस के अभरे हवे सीने को मसलने लगा। “ क़िस्म वाहगोरो की बड़ी जानदार औरत हो।
कलोनत कोर ने एक अदा के साथ एशर सिंह के हाथ एक तरफ़ झटक दये और पोछा “ तमहीं मीरी क़सम बता कहां रहे ------ शहर गे थे
एशर सिंह ने एक ही लपीट में अपने बालों का जोड़ा बनाते हवे जवाब दया। “ नहीं “
कलोनत कोर चड़ गी “ नहीं तुम जरोर शहर गे थे ------ और तुम ने बहत सा रोपीह लोटा है जो मझ से छपा रहे हो।
“ वह अपने बाप का तख़म न हो जो तुम से झोट बोले।
कलोनत कोर थोड़ी दीर के लिये ख़ामोश हो गी लीकन फ़ोरा ही भड़क अठी।
“ लीकन मीरी समझ में नहीं आता इस रात तमहीं हवा कया ------ अछे भले मीरे साथ लीटे थे मझे तुम ने वह सारे गहने पहना रखे थे जो तुम शहर से लोट कर लाे थे। मीरी भपयां ले रहे थे पर जाने एक दम तमहीं कया हवा अठे कपड़े पहन कर बाहर नकल गे।
एशर सिंह का रनग ज़रद हो गया। कलोनत कोर ने यह तबदीली दीखते ही कहा “ दीखा कैसे रनग नीला पड़ गया ------ एशर सयां क़िस्म वाहगोरो की जरोर कुछ दाल में काला हे।
“ तीरी जान की क़सम कुछ भी नहीं।
एशर सिंह की आवाज़ बे जान थी। कलोनत कोर का शबह और ज़यादह मजबूत हो गया। बालाई होनट भीनच कर इस ने एक एक लफ़्ज़ पर ज़ोर दीते हवे कहा “ एशर सयां कया बात हे तुम वह नहीं हो जो आज से आठ रोज पहले थे
एशर सिंह एक दम आथ बीठा जीसे किसी ने इस पर हमलह कयो था कलोनत कोर को अपने तनोमनद बाज़ों में समीट कर इस ने पोरी क़ोत के था भनभोड़ना शुरू कर दया। “ जानी में वही हों ।।।।।।।। गुट गुट पा जफयां तीरी नकले हडां दी गरमी।।।।।।।।
कलोनत कोर ने कोई मज़ाहमत न की लीकन वह शकएत करती रही “ तमहीं इस रात हो कया गया था
“ बुरे की म का वह हो गया था।
“ बता गे नहीं
कवी बात हो तो बतां।
“ मझे अपने हाथों से जला अगर झोट बोलो।
एशर सिंह ने अपने बाज़ो इस की गर्दन में डाल दये और होनट इस के होनटों में गाड़ दये। मोनछों के बाल कलोनत कोर के नथनों में घसे तो असे छीनक आ गी। दोनों हनसने लगे।
एशर सिंह ने अपनी सदरी अतार दी और कलोनत कोर को शहवानी नज़रों से दीख कर कहा “ आ जा एक बाज़ी ताश की हो जाे।
कलोनत कोर के बालाई होनट पर पसीने की ननी ननी बोनदीं फोट आीं। एक अदा के साथ इस ने अपनी आँखों की पतलयां घमाईं और कहा “ चाल दफ़ाान हो।
एशर सनघने इस के भरे हवे कोलहे पर ज़ोर से चटकी भरी। कलोनत कोर तड़प कर एक तरफ़ हट गी। “ न कर एशर सयां मीरे दर्द होता हे।
एशर सिंह ने आगे बड़ कर कलोनत कोर का बालाई होनट अपने दानतों तले दबा लिया और कचकचाने लगा। कलोनत कोर बालकल पघल गी। एशर सिंह ने अपना करतह अतार के फीनक दिया और कहा “ लो फर हो जाे तरप की चाल।।।।।।।।
कलोनत कोर का बालाई होनट कपकपाने लगा। एशर सिंह ने दोनों हाथों से कलोनत कोर की क़मीस का घीरा पकड़ा और जस तरह बकरे की खाल अतारते हीं असी तरह इस को अतार कर एक तरफ़ रख दया। फर इस ने घोर के इस के ननगे बदन को दीखा और ज़ोर से बाज़ो पर चटकी लीते हवे कहा। “ कलोनत क़िस्म वाहगोरो की बड़ी करारी औरत है तो।
कलोनत कोर अपने बाज़ो पर उभरते हवे लाल धबे को दीखने लगी “ बड़ा ज़ालम है तो एशर सयां।
एशर सिंह अपनी घनी मोनछों में मसकरएा “ होने दे आज ज़लम। और यह कहह कर इस ने मज़ीद ज़लम ढाने शुरू कर के। कलोनत कोर का बालाई होनट दानतों तले कचकचएा। कान की लों को काटा। उभरे हवे सीने को भनभोड़ा। भरे हवे कोलहों पर आवाज़ पीदा करने वाली चानटे मारे। गालों के मनह भर भर के बोसे लये। चोस चोस कर इस का सारा सीनह थोकों से लतीड़ दया। कलोनत कोर तीज़ आनच पर चड़ी हवी हानडी के तरह उबलने लगी। लीकन एशर सिंह उन तमाम हीलों के बओजोद ख़ोद में हरारत पीदा न कर सका। जतने गुर और जतने दा असे याद थे सब के सब इस ने पट जाने वाली पहलवान की तरह इस्तेमाल कर दये पर कोई कारगर न हवा। कलोनत कोर ने जस के बदन के सारे तार तन कर ख़ोदबख़ोद बज रहे थे ग़ीर जरोरी छीड़ छाड़ से तनग आ कर कहा “ एशर सयां काफ़ी फीनट चका अब पता फीनक।
यह सनते ही एशर सिंह के हाथ से जीसे ताश की सारी गडी नीचे फसल गी। हानपता हवा वह कलोनत कोर के पहलो में लीट गया और इस के माथे पर सरद पसीने के लीप होने लगे। कलोनत कोर ने असे गरमाने की बहत कोशिश की मगर नाकाम रही। अब तक सब कुछ मनह से कहे बग़ीर ही होता रहा था लीकन जब कलोनत कोर के मनतज़र बह अमल अाजा को सख्त नाामीदी हवी तो वह झला कर पलनग से नीचे अतर गी। सामने खोनटी पर चादर पड़ी थी। इस को अतार कर इस ने जलदी जलदी ओड़ कर और नथने फला कर बफरे हवे लहजे में कहा “ एशर सयां वह कौन हरामज़ादी है जस के पास तो अतने दिन रह कर आया है और जस ने तझ को नचोड़ डाला हे
एशर सिंह पलनग पर लीटा हानपता रहा और इस ने कोई जवाब न दया।
कलोनत कोर ग़से से उबलने लगी “ में पोछती हों कौन है वह चडो ------ कौन है वह अलफ़ती ------ कौन है वह चोर पतह ؟“
एशर सिंह ने थके हवे लहजे में जवाब दिया “ कोई भी नहीं कलोनत कोई भी नहीं।
कलोनत कोर ने अपने भरे हे कोलहों पर हाथ रख कर एक अज़म के साथ कहा “ एशर सयां में आज झोट सच जान के रहों गी ------ वाहगोर जी की क़िस्म ------ कया इस की तहह में कोई औरत नहीं
एशर सिंह ने कुछ कहना चाहा मगर कलोनत कोर ने इस की अजाज़त न दी “ क़िस्म खाने से पहले सोच ले कि में भी सरदार नहाल सिंह की बीटी हों ------ तका बोटी कर दों गी अगर तो ने झोट बोला ------ ले अब ख वाहगोरो की क़िस्म ------ कया इस की तहह में कोई औरत नहीं ؟“
एशर सिंह ने बड़े दख के साथ असबात में सर हलएा। कलोनत कोर बालकल दयवानी हो गी। लपक कर कोने में से करपान अठाई मयान को कीले के छलके की तरह अतार कर एक तरफ़ फीनका और एशर सिंह पर वार कर दया।
आन की आन में लहो के फ़वारे छोट पड़े। कलोनत कोर की इस से भी तसली न हवी तो इस ने वहशी बलयों की तरह एशर सिंह के कीस नोचने शुरू कर दये। साथ ही साथ वह अपनी नामालोम सोत को मोटी मोटी गालयां दीती रही। एशर सिंह ने थोड़ी दीर के बाद नक़ाहत भरी अलतजा की “ जाने दे अब कलोनत जाने दे।
आवाज़ में बला का दर्द था कलोनत कोर पीछे हट गी।
खून एशर सिंह के गले से अड़ अड़ कर इस की मोनछों पर गर रहा था इस ने अपने लरज़ां होनट खोले और कलोनत कोर की तरफ़ शकरये और गले की मली जली नगाहों से दीखा।
“ मीरी जान तुम ने बहत जलदी की ------ लीकन जो हवा ठीक हे।
कलोनत कोर का हसद फर भड़का “ मगर वह कौन हे तमहारी मां।
लहो एशर सिंह की ज़बान तक पहनच गया। जब इस ने इस का ज़ाक़ह चखा तो इस के बदन में झरझरी सी दौर गी।
“ और में ।।।।।। इस में ।।।।।। भीनी या चाय आदमयों को क़त्ल कर चका हों ।।।।।। इस करपान से।।।।।।
कलोनत कोर के दमाग़ में सिर्फ़ दूसरी औरत थी। “ में पोछती हों कौन है वह हरामज़ादी
एशर सिंह की आनखीं धनदला रही थीं। एक हलकी सी चमक उन में पीदा हवी और इस ने कलोनत कोर से कहा “ गाली न दे इस भड़वी को।
कलोनत चलाई “ में पोछती हों वह है कोन
एशर सिंह के गले में आवाज़ रनध गी “ बताता हों। यह कहह कर इस ने अपनी गर्दन पर हाथ फीरा और इस पर अपना जीता खून दीख कर मसकरएा “ इन्सान म या भी एक अजीब चीज़ हे।
कलोनत कोर इस के जवाब की मनतज़र थी “ एशर सयां तो मतलब की बात कर।
एशर सिंह की मसकराहट इस की लहो भरी मोनछों में और ज़यादह फील गी ------ “ मतलब ही की बात कर रहा हों ।।।।।। गला चरा है म या मेरा ।।।।।। अब धीरे धीरे ही सारी बात बतां गा।
और जब वह बात बताने लगा तो इस के माथे पर ठनडे पसीने के लीप होने लगे। “ कलोनत मीरी जान ।।।।।। में तमहीं नहीं बता सकता मीरे साथ कया हवा।।।।।। इन्सान कड़ी या भी एक अजीब चीज़ हे।।।।।। शहर में लोट मची तो सब की तरह में ने भी इस में हसह लिया लीकन एक बात तमहीं न बताई।
एशर सिंह ने घा में दर्द महसूस कया और कराहने लगा। कलोनत कोर ने इस की तरफ़ तोजह न दी और बड़ी बे रहमी से पोछा “ कौन सी बात
एशर सिंह ने मोनछों पर जमते हवे लहो को फोनक के ज़रयाे से अड़ाते हवे कहा “ जस मकान पर ।।।।।। में ने धओा बोला था ।।।।।। इस में सात ।।।।।। इस में सात आदमी थे ।।।।।।। चाय में ने क़त्ल कर दये ।।।।।। असी करपान से जस से तो ने मझे ।।।।।। छोड़ असे ।।।।।। सुन ।।।।।। एक लड़की थी बहत सनदर ।।।।।। इस को अठा कर में अपने साथ ले आया।
कलोनत कोर ख़ामोश सनती रही। एशर सिंह ने एक बार फर फोनक मर के मोनछों पर से लहो अड़एा। “ कलोनत जानी में तुम से कया कहों कतनी सनदर थी ।।।।।। में असे भी मर डालता पर में ने कहा “ नहीं एशर सयां कलोनत कोर के तो हर रोज मज़े लीता हे यह मयोह भी चख दीख।
कलोनत कोर ने सिर्फ़ इस क़दर कहा “ हों ।।।।।। “
असे में कनधे पर डाल कर चाल दिया ।।।।।। रासते में ।।।।।। कया कहह रहा था में ।।।।।। हां रासते में ।।।।।। नहर की पटरी के पास थोहर की झाड़यों तले में ने असे लटा दिया ।।।।।। पहले सोचा कि फीनटों लीकन फर ख़याल आया कि नहीं ।।।।।। यह कहते कहते एशर की ज़बान सोख गी।
कलोनत कोर ने थोक नगल कर अपना हलक़ तर कया और पोछा। “ फर कया हवा
एशर सिंह के हलक़ से बमशकल यह अलफ़ाज़ नकले “ में ने ।।।।।। पता फीनका ।।।।।। लीकन ।।।।।। लीकन “
इस की आवाज़ डोब गी।
कलोनत कोर ने असे झनझोड़ा “ फर कया हवा
एशर सिंह ने अपनी बनद होती हवी आनखीं खोलीं और कलोनत कोर के जसम की तरफ़ दीखा जस की बोटी बोटी थरक रही थी “ वह मरी हवी थी ।।।।।। लाश थी ।।।।।। बालकल ठनडा गोशत ।।।।।। जानी मझे अपना हाथ दे ।।।।।। “
कलोनत कोर ने अपना हाथ एशर सिंह के हाथ पर रखा जो बरफ़ से भी ज़यादह ठनडा था।


।।।।।। खतम शद ।।।।।।
 
Copyright (c) 2010 Short Stories By Sadat Hasan Manto in Urdu Hindi and Powered by Blogger.